Ali1234الباحث
دماغ ماؤف کر دینے والے روایتی ٹاکرے میں پاکستان کے لیے انڈیا کو ہرانا اتنا مشکل کیوں رہا ہے؟
شارك
هل نسيت كلمة المرور؟ الرجاء إدخال بريدك الإلكتروني، وسوف تصلك رسالة عليه حتى تستطيع عمل كلمة مرور جديدة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن السؤال.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن الإجابة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن المستخدم.
دماغ ماؤف ہے، دل گھبراتا ہے۔۔۔ آج تک اس معمے کو کوئی حل نہیں کر سکا کہ جب بھی پاکستان ٹیم انڈیا سے معمول کا کرکٹ میچ کھیلتی ہے، تو کھلاڑی شیر بن کر لڑتے ہیں مگر جب آئی سی سی کے مقابلے میں دونوں ٹیمیں آمنے سامنے ہوتی ہیں تو ان کھلاڑیوں کو کیا ہو جاتا ہے۔ 'نان ورلڈ کپ فکسچر میں ان سے چھکے بھی لگتے ہیںاقرأ المزيد
دماغ ماؤف ہے، دل گھبراتا ہے۔۔۔ آج تک اس معمے کو کوئی حل نہیں کر سکا کہ جب بھی پاکستان ٹیم انڈیا سے معمول کا کرکٹ میچ کھیلتی ہے، تو کھلاڑی شیر بن کر لڑتے ہیں مگر جب آئی سی سی کے مقابلے میں دونوں ٹیمیں آمنے سامنے ہوتی ہیں تو ان کھلاڑیوں کو کیا ہو جاتا ہے۔
‘نان ورلڈ کپ فکسچر میں ان سے چھکے بھی لگتے ہیں اور یہی وکٹیں بھی اڑاتے ہیں، لیکن ادھر میچ کے ساتھ ‘آئی سی سی’ اور ‘ورلڈکپ’ لگ جائے تو اکثر چھکے بھی چھوٹ جاتے ہیں اور طوطے بھی اڑ جاتے ہیں۔
پچاس اوورز کی محدود کرکٹ میں دونوں ٹیموں کا ایک سو پینتیس بار ٹاکرا ہوا ہے اور پانچ بے نتیجہ میچز کو نکال کر، پاکستان کا پلہ بھاری ہی رہا ہے جس نے ایک سو تیس میں سے تہتر مرتبہ فتح سمیٹی ہے۔
آئی سی سی کے ٹورنامنٹ کے اکیس میچوں میں (بشمول ٹی ٹوئنٹی) یہی ٹیم صرف چار میچ جیت سکی ہے۔ تھوڑا ماضی میں جا کر دیکھیں تو کوئی نہ کوئی سرا مل تو سکتا ہے جہاں سے خرابی کا پتہ چلے بی بی سی اردو کے لیے صحافی محمد صہیب نے ان ‘آئی سی سی’ میچوں کی شکستوں پر سابق ٹیسٹ کپتان اور مایہ ناز وکٹ کیپر، معین خان سے بات کی ہے۔
معین خان 1992 میں پاکستان کی فاتح ٹیم کا حصہ تھے اور 1999 کے عالمی کپ کے بہترین وکٹ کیپر بھی قرار پائے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب دو ٹیمیں کھیلتی ہیں تو ایک ہی جیتتی ہے مگر ایسی ‘مسابقت’ میں جو چیز آپ کے اعصاب کو مجروح کرتی ہے وہ دباؤ ہوتا ہے۔ آئی سی سی ورلڈ کپ کے میچز میں صرف پریشر ہوتا ہے اور کوئی بات نہیں۔’
انھوں نے کہا کہ ‘پاکستان اور انڈیا کا میچ ہمیشہ پریشر والا ہوتا ہے۔ سنہ بانوے کی ٹیم کو لے لیں، اس ٹیم کا ہر پلئیر ایک میچ ونر ہوتا تھا۔’
انھوں نے مزید کہا کہ ‘سڈنی میں انڈیا سے پہلی بار کسی ورلڈ کپ کا میچ کھیل رہے تھے تو دوسو سترہ کے تعاقب میں وکٹیں وقفے وقفے سے گر رہی تھیں اور کہیں بھی ایک بڑی پارٹنرشپ نہیں لگ سکی تھی جس کے باعث ہم وہ میچ ہار گئے۔’
معین خان 1999 کے عالمی کپ میں اپنی زندگی کی بہترین فارم میں تھے، دھواں دھار بیٹنگ میں یا تو جنوبی افریقہ کے لانس کلوزنر کا بلا چنگھاڑ رہا تھا یا معین خان کا۔ جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، انڈیا ہو یا سکاٹ لینڈ، وہ وکٹ کے پیچھے اور آگے بھی بہترین کارکردگی دکھا رہے تھے۔
ایک سو دس کے سٹرائیک ریٹ سے انھوں نے دو سو بیالیس رنز سکور کیے تھے۔ انڈیا کے خلاف میچ میں جب وہ اونچا شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے تو اس وقت پاکستان کو سولہ اوورز میں ایک سو چار رنز درکار تھے۔
معین خان اس میچ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’99 میں مانچسٹر میں بھی ہم ہار گئے تھے، بڑا کلوز میچ ہوا تھا، بڑی کوشش کی تھی ہم نے۔۔ جب میں آؤٹ ہوا تھا اس وقت ہم میچ جیت رہے تھے۔ آپ غلطی کہہ لیں اس کو یا اپنے مخالف کی اچھی کارکردگی لیکن ہمارے دماغ میں یہی تھا کہ کسی طرح پاکستان کو جتانا ہے اور یہ جو ایک مارک لگا ہوا تھا پاکستان ٹیم کے اوپر کہ ہم آئی سی سی کے میچز میں ہار جاتے ہیں، وہ ہٹانا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
دماغ ماؤف ہے، دل گھبراتا ہے۔۔۔ آج تک اس معمے کو کوئی حل نہیں کر سکا کہ جب بھی پاکستان ٹیم انڈیا سے معمول کا کرکٹ میچ کھیلتی ہے، تو کھلاڑی شیر بن کر لڑتے ہیں
دماغ ماؤف ہے، دل گھبراتا ہے۔۔۔ آج تک اس معمے کو کوئی حل نہیں کر سکا کہ جب بھی پاکستان ٹیم انڈیا سے معمول کا کرکٹ میچ کھیلتی ہے، تو کھلاڑی شیر بن کر لڑتے ہیں



قراءة أقل