Ali1234الباحث
شمالی کوریا میں سیاحوں کی میزبانی کرنے والے سرکاری ہوٹل جو آپ کو کئی دہائی پیچھے لے جاتے ہیں
شارك
هل نسيت كلمة المرور؟ الرجاء إدخال بريدك الإلكتروني، وسوف تصلك رسالة عليه حتى تستطيع عمل كلمة مرور جديدة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن السؤال.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن الإجابة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن المستخدم.
شمالی کوریا جانے والے بہت سارے سیاحوں کو وقت کے ساتھ واپس سفر کرنے کا احساس اس وقت ہو گا جب وہ اپنے ہوٹل میں داخل ہوں گے۔ بی بی سی کورین کے جولی لی لکھتے ہیں ’پیانگ یانگ ہوٹلوں میں سنہ 1970 کے انوکھے فن تعمیر اور ڈیزائن کو اب ایک نئی کتاب میں دستاویزی شکل دی گئی ہے جس میں شمالی کوریا کی ثقافت کی ایکاقرأ المزيد
شمالی کوریا جانے والے بہت سارے سیاحوں کو وقت کے ساتھ واپس سفر کرنے کا احساس اس وقت ہو گا جب وہ اپنے ہوٹل میں داخل ہوں گے۔ بی بی سی کورین کے جولی لی لکھتے ہیں ’پیانگ یانگ ہوٹلوں میں سنہ 1970 کے انوکھے فن تعمیر اور ڈیزائن کو اب ایک نئی کتاب میں دستاویزی شکل دی گئی ہے جس میں شمالی کوریا کی ثقافت کی ایک انتہائی نایاب جھلک پیش کی گئی ہے۔‘
شمالی کوریا آنے والے سیاحوں پر حکام گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس ملک میں سیاحت کی صنعت کو ریاست کنٹرول کرتی ہے اور حکومتی ٹور گائیڈز سیاحوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ انھیں صرف ’منظور شدہ‘ مقامات تک رسائی کی اجازت ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ سب سیاحوں کا سفر ایک جیسا ہوتا ہے۔
لیکن گذشتہ موسم بہار میں آسٹریلیا کے فوٹو گرافر جیمز سکولن اور نکول ریڈ نے دارالحکومت پیانگ یانگ میں پانچ راتیں گزاریں، گیارہ ہوٹلوں میں وقت گزارا اور ’ہوٹلز آف پیانگ یانگ‘ کے نام سے کتاب شائع کی۔