...

تسجيل دخول تسجيل دخول

تواصل مع جوجل
أو استخدم

هل نسيت كلمة المرور؟

لا تملك عضوية، ‫تسجيل جديد من هنا

نسيت كلمة المرور نسيت كلمة المرور

هل نسيت كلمة المرور؟ الرجاء إدخال بريدك الإلكتروني، وسوف تصلك رسالة عليه حتى تستطيع عمل كلمة مرور جديدة.

هل لديك عضوية؟ تسجيل دخول الآن

‫‫‫عفوًا، ليس لديك صلاحيات لإضافة سؤال, يجب تسجيل الدخول لتستطيع إضافة سؤال.

تواصل مع جوجل
أو استخدم

هل نسيت كلمة المرور؟

تحتاج إلى عضوية، ‫تسجيل جديد من هنا

برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن السؤال.

برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن الإجابة.

برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن المستخدم.

تسجيل دخولتسجيل

Nuq4

Nuq4 اللوجو Nuq4 اللوجو
بحث
أسأل سؤال

قائمة الموبيل

غلق
أسأل سؤال
  • Nuq4 المحل
  • تصبح عضوا
Ali1234
  • 0
Ali1234الباحث

مسجد اقصیٰ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے اہم کیوں؟

  • 0
  • 2 إجابتين
  • 0 متابعين
  • 0
إجابة
شارك
  • فيسبوك

    إجابتين

    1. Ali1234 الباحث
      2025-08-04T01:21:04-07:00‫أضاف ‫‫إجابة يوم أغسطس 4, 2025 في 1:21 am

      اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی حلف برداری کے ایک ہفتے کے اندر ہی ملک کے قومی سلامتی کے وزیر اور انتہائی دائیں بازو کے رہنما ایتامر بین گویر کا مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ کے احاطے کا دورہ بہت زیادہ تنازعے کا شکار ہو گیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے اسے ’بے مثال اشتعال انگیزی‘‫اقرأ المزيد

      اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی حلف برداری کے ایک ہفتے کے اندر ہی ملک کے قومی سلامتی کے وزیر اور انتہائی دائیں بازو کے رہنما ایتامر بین گویر کا مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ کے احاطے کا دورہ بہت زیادہ تنازعے کا شکار ہو گیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے اسے ’بے مثال اشتعال انگیزی‘ قرار دیا ہے۔

      یروشلم تینوں مذاہب اسلام، یہودیت اور مسیحیت کے پیروکاروں کے لیے مقدس مقام ہے۔ مسجد اقصیٰ کو مکہ کی مسجد الحرام اور مدینہ کی مسجد نبوی کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔

      یہودی مسجد کے احاطے میں داخل ہو سکتے ہیں لیکن انھیں وہاں عبادت کرنے کی اجازت نہیں۔

      ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ آیا ایتامر بین گویر نے وہاں عبادت کی یا نہیں لیکن فلسطینی اسے مسجد اقصیٰ کی موجودہ حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ آخر اسرائیلی وزیر کا مسجد اقصیٰ کے احاطے میں جانا اتنا متنازع کیوں بن گیا اور مسجد اقصیٰ اتنی اہم کیوں ہے کہ اسرائیلی وزیر کے وہاں جانے کے بعد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر کئی مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ چین نے بھی شدید اعتراض کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے

      درحقیقت مشرقی یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ یہودیوں کے لیے مقدس ترین مقام ہے اور اسے اسلام میں تیسرا مقدس ترین مقام بھی سمجھا جاتا ہے۔

      مقدس مقام، جسے یہودیوں کے لیے ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ اور مسلمانوں کے لیے ’الحرم الشریف‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں ’مسجد اقصیٰ‘ اور ’ڈوم آف دی راک‘ شامل ہیں۔

      ’ڈوم آف دی راک‘ کو یہودیت میں مقدس ترین مقام کا درجہ دیا گیا ہے اور مسلمان بھی پیغمبر اسلام محمد کی نسبت سے اسے مقدس مقام مانتے ہیں۔

      اس مذہبی مقام پر غیر مسلموں کے عبادت کرنے پر پابندی ہے۔

      مسجد اقصیٰ گول گنبد والی مسجد کا نام ہے جو 35 ایکڑ کے احاطے میں موجود ہے۔ مسلمان اسے الحرم الشریف بھی کہتے ہیں۔ یہودی اسے ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں۔

      یہ کمپلیکس یروشلم کے پرانے علاقے میں ہے جسے یونیسکو سے عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ مل چکا ہے

      یہ علاقہ سنہ 1967 میں غربِ اردن، غزہ کی پٹی اور اولڈ سٹی سمیت مشرقی یروشلم کے اسرائیل کے الحاق کے بعد سے متنازع ہے تاہم اس حوالے سے تنازع اسرائیل کے وجود سے پہلے سے جاری ہے۔ 1947 میں اقوام متحدہ نے ایک علیحدہ فلسطینی علاقے کے لیے تقسیم کا منصوبہ بنایا۔ اس وقت فلسطین برطانیہ کے قبضے میں تھا۔

      اس منصوبے کے مطابق دو ممالک بنائے جانے تھے، ایک یورپ سے آنے والے یہودیوں کے لیے اور دوسرا فلسطینیوں کے لیے۔ یہودیوں کو 55 فیصد زمین اور باقی 45 فیصد زمین فلسطینیوں کو دی گئی۔ 1948 میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سمیت 72 فیصد زمین پر قبضہ کر لیا اور خود کو ایک آزاد ملک قرار دیا۔

      دراصل 1967 میں دوسری عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے مشرقی یروشلم شہر پر قبضہ کر لیا اور اس طرح شہر کے پرانے علاقے میں واقع الاقصیٰ کمپلیکس بھی اس کے قبضے میں آ گیا۔

      اسرائیل نے اسے اردن سے چھین لیا تھا لیکن مقدس مقامات کے کنٹرول کے تنازع کے بعد جمود کو برقرار رکھنے کے لیے ایک نظام بنایا گیا۔

      اس انتظام کے تحت اردن کو اس جگہ کا نگہبان بنایا گیا تھا جبکہ اسرائیل کو سکیورٹی کے نظام کو سنبھالنے کی ذمہ داری ملی تھی لیکن یہاں صرف مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت تھی۔

      یہودی یہاں آ سکتے تھے لیکن انھیں عبادت کرنے سے منع کیا گیا تھا۔

      ‫قراءة أقل
      • 0
      • شارك
        شارك
        • شارك علىفيسبوك
        • شارك على تويتر
        • شارك على لينكد إن
        • شارك على واتس آب
    2. Ali1234 الباحث
      2025-08-04T01:22:58-07:00‫أضاف ‫‫إجابة يوم أغسطس 4, 2025 في 1:22 am

      مسجد اقصیٰ اور اس کے پس منظر پر تنازع

      مسجد اقصیٰ اور اس کے پس منظر پر تنازع

      ‫قراءة أقل
      • 0
      • شارك
        شارك
        • شارك علىفيسبوك
        • شارك على تويتر
        • شارك على لينكد إن
        • شارك على واتس آب

    يجب عليك تسجيل الدخول لإضافة إجابة.

    تواصل مع جوجل
    أو استخدم

    هل نسيت كلمة المرور؟

    تحتاج إلى عضوية، ‫تسجيل جديد من هنا

    القائمة الجانبية

    أكتشاف

    • Nuq4 المحل
    • تصبح عضوا

    الفوتر

    احصل على إجابات على جميع الأسئلة الخاصة بك ، كبيرة أو صغيرة ، Nuq4.com. لدينا قاعدة بيانات في تزايد مستمر ، بحيث يمكنك دائما العثور على المعلومات التي تحتاج إليها.

    Download Android App

    © حقوق الطبع والنشر عام 2024 ، Nuq4.com

    القانونية

    الشروط والأحكام
    سياسة الخصوصية
    سياسة الكوكيز
    سياسة DMCA
    قواعد الدفع
    سياسة رد
    Nuq4 الهبة الشروط والأحكام

    الاتصال

    الاتصال بنا
    Chat on Telegram
    arالعربية
    en_USEnglish arالعربية
    نحن نستخدم ملفات تعريف الارتباط لضمان أن نقدم لكم أفضل تجربة على موقعنا على الانترنت. إذا كان يمكنك الاستمرار في استخدام هذا الموقع سوف نفترض أن كنت سعيدا مع ذلك.طيبسياسة الكوكيز
    #!trpst#trp-gettext data-trpgettextoriginal=7145#!trpen#Seraphinite Accelerator#!trpst#/trp-gettext#!trpen##!trpst#trp-gettext data-trpgettextoriginal=7146#!trpen#Optimized by #!trpst#trp-gettext data-trpgettextoriginal=7145#!trpen#Seraphinite Accelerator#!trpst#/trp-gettext#!trpen##!trpst#/trp-gettext#!trpen#
    #!trpst#trp-gettext data-trpgettextoriginal=7147#!trpen#Turns on site high speed to be attractive for people and search engines.#!trpst#/trp-gettext#!trpen#