Ali1234الباحث
ملک میں ڈبے کے دودھ کی حقیقی ضرورت صرف 2 ہزار بچوں کو! لیکن سالانہ اربوں خرچ کیے جاتے ہیں
شارك
هل نسيت كلمة المرور؟ الرجاء إدخال بريدك الإلكتروني، وسوف تصلك رسالة عليه حتى تستطيع عمل كلمة مرور جديدة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن السؤال.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن الإجابة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن المستخدم.
ماہرین صحت نے انکشاف کیا ہے کہ ڈبے کا دودھ صرف ماں سے محروم بچے کی ضرورت ہے لیکن فارمولا دودھ پر اربوں روپے غیر ضروری خرچ کیے جاتے ہیں۔ ڈبے کا دودھ یا فارمولا ملک صرف ان بچوں کو دیا جا سکتا ہے جن کی مائیں پیدائش کے دوران یا فوراً بعد انتقال کر جائیں اور ایسے بچوں کو کسی بھی دوسری رضاعی ماں کا دودھاقرأ المزيد
ماہرین صحت نے انکشاف کیا ہے کہ ڈبے کا دودھ صرف ماں سے محروم بچے کی ضرورت ہے لیکن فارمولا دودھ پر اربوں روپے غیر ضروری خرچ کیے جاتے ہیں۔
ڈبے کا دودھ یا فارمولا ملک صرف ان بچوں کو دیا جا سکتا ہے جن کی مائیں پیدائش کے دوران یا فوراً بعد انتقال کر جائیں اور ایسے بچوں کو کسی بھی دوسری رضاعی ماں کا دودھ دستیاب نہ ہو، وہ تمام بچے جن کی مائیں زندہ ہوں اور اپنے بچوں کو دودھ پلا سکتی ہوں ان کو ڈبے کا دودھ پلانا ایک سنگین طبی غفلت اور انہیں اپنے ہاتھوں سے موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں ہر سال تقریباً 60 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن ان میں سے صرف دو ہزار سے بھی کم نوزائیدہ ایسے ہوتے ہیں جنہیں ماں کے دودھ کے بجائے متبادل دودھ کی حقیقی طبی ضرورت ہوتی ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق یہ وہ بچے ہوتے ہیں جن کی مائیں زچگی کے دوران انتقال کر جائیں، شدید بیماری میں مبتلا ہوں یا جنہیں نایاب میٹابولک امراض لاحق ہوں۔
س کے باوجود ملک میں ہر سال 110 ارب روپے سے زائد کا فارمولا دودھ اور بچوں کی تیار شدہ غذا استعمال ہو رہی ہے جو کہ ایک تشویشناک رجحان اور غیر ضروری خرچ ہے۔
دنیا کے نامور ماہر صحت پروفیسر ذوالفقار بھٹہ، سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونیٹولوجی کے سربراہ پروفیسر جمال رضا اور آغا خان اسپتال کے شعبہ امراض اطفال کی سربراہ پروفیسر فائزہ جہاں کے نوزائیدہ بچوں کی اصل طبی ضرورت اور فارمولا دودھ کے بڑھتے ہوئے استعمال میں بڑا فرق اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بین الاقوامی کمپنیوں کی جارحانہ اور غیر اخلاقی مارکیٹنگ پاکستان میں ماں کے دودھ کے کلچر کو کمزور کر رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کے لیے ڈبے کا دودھ درآمد اور مقامی طور پر تیار کرنے والی کمپنیوں کو ملک میں کسی بھی مؤثر قانونی روک ٹوک کا سامنا نہیں ہے سوائے صوبہ سندھ میں جہاں پر ایک حالیہ قانون کے ذریعے ان کمپنیوں کو ایک محتاط دائرہ کار میں لایا گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ماؤں کی اموات کی شرح 186 فی ایک لاکھ ولادتیں ہے، یعنی صرف چند سو مائیں ہی زچگی کے وقت انتقال کرتی ہیں، اگر دیگر شدید طبی مسائل کو بھی شامل کیا جائے تو ماہرین کا کہنا ہے کہ سالانہ صرف دو ہزار نوزائیدہ بچے ایسے ہوتے ہیں جنہیں فوری طور پر فارمولا دودھ کی ضرورت ہوتی ہے۔
قراءة أقلپاکستان میں ماں کا دودھ نہ پلانے کی وجہ سے ہر سال ملک کو تقریباً 2.8 اربڈالر کا نقصان ہوتا وز