Ali1234الباحث
پاکستان میں گیس کے ذخائر میں بڑی کمی: کیا اس بحران سے نکلنے کے لیے کوئی متبادل موجود ہے؟
شارك
هل نسيت كلمة المرور؟ الرجاء إدخال بريدك الإلكتروني، وسوف تصلك رسالة عليه حتى تستطيع عمل كلمة مرور جديدة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن السؤال.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن الإجابة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن المستخدم.
’چولہے، ہیٹر اور گیزر بند۔ اب بس سردی میں ٹھٹھرتے رہنا ہی ہمارا مقدر بن گیا۔۔۔‘ اسلام آباد کی رہائشی ذکیہ نیئر کا سوال ہے کہ جب دن میں صرف آٹھ گھنٹے گیس آئے گی تو وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے لیے کھانا کیسے بنائیں گی؟ ذکیہ ان پاکستانیوں میں سے ہیں جو گرمیوں میں غیر اعلانیہ گیس لوڈشیڈنگ کے بعد اب سردیاقرأ المزيد
’چولہے، ہیٹر اور گیزر بند۔ اب بس سردی میں ٹھٹھرتے رہنا ہی ہمارا مقدر بن گیا۔۔۔‘ اسلام آباد کی رہائشی ذکیہ نیئر کا سوال ہے کہ جب دن میں صرف آٹھ گھنٹے گیس آئے گی تو وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے لیے کھانا کیسے بنائیں گی؟
ذکیہ ان پاکستانیوں میں سے ہیں جو گرمیوں میں غیر اعلانیہ گیس لوڈشیڈنگ کے بعد اب سردیوں میں بھی گیس کی ’16 گھنٹے لوڈ شیڈنگ‘ کے حکومتی اعلان سے انتہائی نالاں ہیں۔
نگران وزیر توانائی محمد علی نے سردیوں میں گھریلو صارفین کے لیے گیس کی لوڈ مینیجمنٹ سے متعلق پوچھے گئے بی بی سی کے سوال کے جواب میں بتایا کہ ’اس سال بھی گذشتہ سال کی طرح دن میں آٹھ گھنٹے گیس سپلائی کی جائے گی۔‘
ملک میں گیس کے ذخائر میں ایک سال میں ’18 فیصد کمی‘ کے باعث نگران حکومت کی کوشش ہے کہ ’سردیوں میں گھروں کو آٹھ گھنٹے گیس ملے۔‘ یعنی صرف کھانے کے اوقات کے دوران صبح چھ سے نو، پھر دو گھنٹے دوپہر کو اور شام بھی چھ سے نو گیس سپلائی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ ’ان اوقات کار سے گھریلو صارفین کی گیس کی طلب پوری ہو جائے گی اور ہماری کوشش ہے کہ صنعتوں کو گیس کی سپلائی زیادہ سے زیادہ ملے کیونکہ وہ لوگوں کے روزگار کے لیے اور کارخانے چلانے کے لیے بہت ضروری ہیں۔
ملک میں سردیوں کے دوران گیس کی لوڈ شیڈنگ تو کئی سال سے معمول ہے تاہم رواں سال گرمیوں میں بھی گیس کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہوئی۔
اسلام آباد کی ذکیہ نیئر نے اس صورتحال کو ’انتہائی کوفت‘ کا باعث قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بجلی کی قیمت میں اضافے کے بعد گھروں کو گرم رکھنے کے لیے بجلی کے ہیٹر استعمال کرنا بھی ممکن نہ ہوگا۔
انھیں لگتا ہے کہ اب ’گھر کے ایک کونے میں مٹی کا چولہا بنا لوں اور بچوں کو لکڑیاں اکٹھی کرنے بھیجا کروں۔ اس کے علاوہ تو کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔۔۔‘
ادھر کراچی کی سکول ٹیچر یاسمین ناز کی شکایت ہے کہ صرف گیس کی لوڈ شیڈنگ ہی نہیں ہوتی بلکہ ’جو گیس آنے کا وقت ہے اس میں بھی پریشر اس قدر کم آ رہا ہوتا ہے کہ چاول یا روٹی بنانا مشکل ہوتا ہے۔‘
’پچھلے دنوں فلو اور گلا خراب رہا تو رات میں نہ سٹیم لے سکی نہ قہوہ گھر میں بنا سکی۔ لگتا ہے کہ دوبارہ لکڑیوں اور کوئلے کے دور میں پہنچ جائیں گے۔
ان کا مطالبہ ہے کہ ملک میں قدرتی گیس کی کمی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ گیس کے غیر قانونی کنکشنز کو ختم کیا جائے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’ہمارے پڑوس میں ایک خاتون نے گیس نہ آنے پر چھت پر اینٹیں رکھ کر ایک چولہا بنا لیا ہے جس میں وہ لکڑیاں ڈال کر کھانا بناتی ہیں۔ اس میں وہ دودھ کے خالی ڈبے اور دیگر ردی ڈال کر آنچ بھی بڑھاتی ہیں۔۔۔ لگتا ہے کہ لوگ آہستہ آہستہ مختلف حل کی جانب جانے پر مجبور ہوں گے۔‘
پشاور کی رہائشی نسرین نے بتایا کہ ’گرمیوں میں گیزر چلتے ہیں نہ ہیٹر۔ پھر بھی آٹھ سے 10 گھنٹے گیس نہیں ہوتی۔ اور اب جب آٹھ گھنٹے گیس آنے کا اعلان کر دیا گیا ہے تو بچوں کا کھانا ناشتہ سکول گرم پانی کرنا غرض سارے چولہے سے متعلق کام کیسے ہوں گے زندگی تو مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔‘
’ہمارے ہاں خیبر پختونخوا میں گیس کے ذخائر تو ہیں مگر کوئی حکومت اس پر کام نہیں کرتی۔ ہمارے ہاں ذخائر کو استعمال کیا جائے اور ان سے فائدہ اٹھایا جائے تاکہ لوگوں کو گیس اور روزگار بھی ملے
’لگتا ہے ہم دوبارہ لکڑیوں اور کوئلے کے دور میں پہنچ جائیں گے‘
’لگتا ہے ہم دوبارہ لکڑیوں اور کوئلے کے دور میں پہنچ جائیں گے‘






قراءة أقل