شارك
هل نسيت كلمة المرور؟ الرجاء إدخال بريدك الإلكتروني، وسوف تصلك رسالة عليه حتى تستطيع عمل كلمة مرور جديدة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن السؤال.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن الإجابة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن المستخدم.
امریکی صدر ٹرمپ ایران اسرائیل تنازعے میں ایک بار پھر اپنے موقف میں تبدیلی لاتے دکھائی دے رہے ہیں، پہلے انھوں نے اسرائیل کے ایران پر حملوں کی مکمل حمایت کی اور اب وہ تیزی سے ان تبصروں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اس اہم تنازعے پر بڑھتی کشیدگی میں ان کے ابہام نے غیر یقینی کی فضا کو مزید بڑھایا ہے۔ اس سب کے دواقرأ المزيد
امریکی صدر ٹرمپ ایران اسرائیل تنازعے میں ایک بار پھر اپنے موقف میں تبدیلی لاتے دکھائی دے رہے ہیں، پہلے انھوں نے اسرائیل کے ایران پر حملوں کی مکمل حمایت کی اور اب وہ تیزی سے ان تبصروں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
اس اہم تنازعے پر بڑھتی کشیدگی میں ان کے ابہام نے غیر یقینی کی فضا کو مزید بڑھایا ہے۔ اس سب کے دوران وہ کینیڈا میں منقعدہ جی سیون ممالک کے اجلاس سے بھی اٹھ کر چلے گئے اور انھوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن واپس جانے کے لیے ان کے پاس ‘اہم وجہ’ ہے۔
وائٹ ہاؤس نے ان کے جی سیون ممالک کے اجلاس سے چلے جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ‘مشرق وسطی کی صورتحال’ اس کی وجہ ہے جبکہ بعدازاں انھوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ‘اس کا سیز فائر سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔’
اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ایران پر حملے امریکہ کی ’مکمل مشاورت‘ سے کیے گئے ہیں
نتین یاہو کے دباؤ کے آگے جھک جائیں اور کشیدگی کو مزید بڑھائیں
جمعرات کو تہران پر اسرائیلی میزائل حملوں کے بعد ٹرمپ نے ایران کے رہنماوں کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان کے اسرائیلی اتحادی کی جانب سے امریکی ببموں سے لیس ‘مزید خطرناک حملوں’ کے لیے تیار رہیں۔
ہمیں ٹرمپ کے بنیادی مقصد کے متعلق علم ہے۔ نیتن یاہو کی طرح انھوں نے کہا ہے کہ ایران ایٹمی بم کی صلاحیت نہیں رکھ سکتا۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے نتین یاہو کے برعکس ایران کی جوہری صلاحیت ختم کرنے کے لیے امریکہ اور ایران کے درمیان ایک معاہدے کرنا کا کہا ہے۔ ( یہ اقدام ان کے خود ساختہ بیان کردہ عالمی سطح کے ثالث کا عکاس ہے۔)
لیکن انھوں نے اس بارے میں بہت شور مچایا ہے کہ وہ اس معاہدے تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ کبھی انھوں نے ایران پر طاقت کا استعمال کرنے کی بات کی تو کبھی سفارتکاری پر زور دیا۔ گذشتہ ہفتے انھوں نے یہاں تک کہا کہ ایران پر اسرائیلی حملے یا تو معاہدے میں مددگار ہوں گے یا پھر اسے ‘ختم کر دیں گے۔’
ڈونلڈ ٹرمپ کا ناقابلِ پیشن گوئی رویہ اکثر ان کے حامیوں میں بھی نظر آتا ہے جو کہ ایک سٹریٹیجک حقیقت ہے اور خارجہ امور کی نام نہاد ‘میڈ مین’ تھیوری سے مطابقت رکھتا ہے۔
یہ نظریہ وہ ہے جو پہلے ٹرمپ کے مذاکراتی حربوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے اور یہ تجویز کرتا ہے کہ جان بوجھ کر غیر یقینی یا غیر متوقع طور پر تنازعات میں کشیدگی مخالفوں (یا حتیٰ کہ ٹرمپ کے معاملے میں اتحادیوں) کو تعمیل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ طریقہ صدر رچرڈ نکسن کے سرد جنگ کے کچھ طریقوں سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔
جیسا کہ دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے ویسے ہی ٹرمپ پر کانگرس میں موجود شاطر ریپبلکنز کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے
جیسا کہ دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے ویسے ہی ٹرمپ پر کانگرس میں موجود شاطر ریپبلکنز کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے



قراءة أقل