شارك
هل نسيت كلمة المرور؟ الرجاء إدخال بريدك الإلكتروني، وسوف تصلك رسالة عليه حتى تستطيع عمل كلمة مرور جديدة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن السؤال.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن الإجابة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن المستخدم.
گتا ہے کہ سائنسدانوں کی ایک ٹیم ایک ایسے سفر پر روانہ ہو گئی ہے جس کے راستے میں ان کا سامنا برف کی اتنی بڑی بڑی چٹانوں سے ہو گا جس کی مثال نہیں ملتی۔ ہو سکتا ہے ہمارے اس انداز بیان میں تھوڑی بہت مبالغہ آرائی بھی ہو، لیکن بین الاقوامی سائنسدانوں کی ٹیم قطب جنوبی کے جس سفر پر نکلی ہے وہاں وہ خود کو ایاقرأ المزيد
گتا ہے کہ سائنسدانوں کی ایک ٹیم ایک ایسے سفر پر روانہ ہو گئی ہے جس کے راستے میں ان کا سامنا برف کی اتنی بڑی بڑی چٹانوں سے ہو گا جس کی مثال نہیں ملتی۔
ہو سکتا ہے ہمارے اس انداز بیان میں تھوڑی بہت مبالغہ آرائی بھی ہو، لیکن بین الاقوامی سائنسدانوں کی ٹیم قطب جنوبی کے جس سفر پر نکلی ہے وہاں وہ خود کو ایسے تنگ سمندری راستے پر پائے گی جسے ’برفیلی چٹانوں کی تنگ گلی‘ کہنا کچھ غلط بھی نہیں ہو گا۔
یہ سائنسدان اینٹارکٹِک یا قطب جنوبی پر پہنچ کر سمندر کی تہہ میں کھدائی کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس مہم کے دوران انھیں سمندر میں تیرتے ہوئے برف کے بڑے بڑے تودوں کا سامنا ہو سکتا ہے
امید ہے کہ یہ لوگ سمندر کی تہہ سے جو مواد نکالیں گے اس سے ہمیں یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ یہ ’سفید براعظم` کن تبدیلوں سے گزرا ہے اور اس کی سطح پر موجود برف کی دبیز تہہ پر بڑھتی ہوئی عالمی حدت کے کیا اثرات ہونے جا رہے ہیں۔
سمندر میں تحقیق کے ایک بین الاقوامی منصوبے ’ انٹرنیشل اوشن ڈسکوری پروگرام` کی اس مہم کو ’ایکسپڈیشن 382 ‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ پیر 25 مارچ کو چلی کی ایک بندرگاہ سے روانہ ہوئی۔ یہ ٹیم ’برفیلی چٹانوں کی تنگ گلی‘ یا ’آئیس برگ ایلی‘ کے عین درمیان میں پہنچ کر کئی مقامات پر سمندر میں کھدائی کرے گی۔ یہ ٹیم ’جے آر‘ نامی بحری جہاز پر سوار ہے جس میں سمندر میں کھدائی کی صلاحیت موجود ہے۔
اس مہم میں جب بحری جہاز جزیرہ نما سے بحرِ اوقیانوس کے جنوبی کونے کی جانب بڑھے گا تو سائنسدان اصل میں اس ملبے کو تلاش کر رہے ہوں گے جو گذشتہ لاکھوں برسوں میں بڑی بڑی برفانی چٹانوں سے ٹوٹ کر سمندر میں گرتا رہا ہے۔
مٹی اور چٹانوں کے ٹکڑوں سے بننے والا یہ ملبہ اصل میں براعظم انٹارکٹا سے صدیوں پہلے اس وقت الگ ہوا تھا جب یہ پورا براعظم ایک بہت بڑا گلیشئئر تھا۔
اور عرضیاتی کیمیا کے میدان میں جس قدر ترقی گذشتہ عرصے میں ہوئی ہے، اس کے طفیل اب یہ بتانا ممکن ہو گیا ہے کہ فلاں برفانی چٹان گلیشیئر سے کب الگ ہوئی تھی۔، بلکہ یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ یہ انٹارکٹا کے کس حصے سے ٹوٹی تھی۔
’سنہ 2100 تک ہمالیہ،ہندوکش کے 36 فیصد گلیشیئر ختم ہو جائیں گے‘
’سنہ 2100 تک ہمالیہ،ہندوکش کے 36 فیصد گلیشیئر ختم ہو جائیں گے‘







قراءة أقل