Recent reports indicate that Donald Trump is considering selling or even giving away the red Tesla Model S he purchased in March. This comes amidst a highly public and increasingly bitter feud between Trump and Elon Musk. Trump initially bought the red Tesla as a show of support for Musk and his comاقرأ المزيد
Recent reports indicate that Donald Trump is considering selling or even giving away the red Tesla Model S he purchased in March. This comes amidst a highly public and increasingly bitter feud between Trump and Elon Musk.
Trump initially bought the red Tesla as a show of support for Musk and his company, especially as Tesla faced scrutiny and Musk became more involved in Trump’s political agenda. However, their relationship has dramatically soured in recent days, with public spats on social media, insults traded, and Trump even threatening to cut government contracts for Musk’s companies.
The red Tesla, which has been parked at the White House for weeks, has now become a symbol of their broken alliance. While Secret Service protocols prevent presidents from driving themselves, Trump’s decision to acquire the car was a clear endorsement. Now, with the public fallout, he appears eager to distance himself from it.
پہلگام حملہ 22 اپریل 2025 کو ہوا تھا، جس کے بعد سے انڈیا اور پاکستان کے تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ حملہ جنوبی کشمیر کے پہلگام قصبے میں ہوا تھا، جہاں مسلح افراد نے سیاحوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 28 افراد ہلاک ہو گئے جن میں زیادہ تر سیاح شامل تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری 'دی ریزسٹنساقرأ المزيد
پہلگام حملہ 22 اپریل 2025 کو ہوا تھا، جس کے بعد سے انڈیا اور پاکستان کے تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ حملہ جنوبی کشمیر کے پہلگام قصبے میں ہوا تھا، جہاں مسلح افراد نے سیاحوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 28 افراد ہلاک ہو گئے جن میں زیادہ تر سیاح شامل تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری ‘دی ریزسٹنس فرنٹ’ (TRF) نامی تنظیم نے قبول کی۔
قراءة أقلچار روزہ تنازع اور اس کے بعد کی صورتحال:
پہلگام حملے کے بعد انڈیا نے فوری طور پر پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا، جسے پاکستان نے سختی سے مسترد کر دیا۔ اس کشیدگی نے دونوں ایٹمی طاقتوں کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا، اور اس کے بعد کئی اہم واقعات پیش آئے۔
* انڈیا کے اقدامات:
* انڈیا نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا اور واہگہ بارڈر بند کر دیا۔
* پاکستان سے تمام اشیاء کی براہ راست اور بالواسطہ درآمد پر پابندی عائد کر دی۔
* پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کر دیے۔
* سفارتی تعلقات کو کم کر دیا۔
* انڈیا نے 7 مئی 2025 کو پاکستان پر میزائل حملے کیے جنہیں “آپریشن سیندور” کا نام دیا گیا۔ انڈیا نے دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں 100 سے زائد دہشت گرد مارے گئے۔
* انڈیا نے اپنی سفارتی زبان اور کارروائی میں شدت لائی اور کسی بھی “دہشت گردانہ حملے” کو “ایکٹ آف وار” کے طور پر دیکھنے کا موقف اپنایا۔
* پاکستان کے جوابی اقدامات:
* پاکستان نے انڈیا سے تجارت کو مکمل طور پر بند کر دیا۔
* انڈین ایئرلائنز کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی۔ (بعد میں جنگ بندی کے بعد 10 مئی 2025 کو دوبارہ کھول دی گئیں)۔
* انڈین شہریوں کے لیے ویزے منسوخ کر دیے۔
* شملہ معاہدہ معطل کرنے کی دھمکی دی۔
* پاکستان نے انڈیا کے فضائی حملوں کے جواب میں اپنی فضائی حدود میں انڈیا کی متعدد ایئربیسز پر میزائل اور فضائی حملے کرنے کا دعویٰ کیا۔
* عالمی رد عمل اور جنگ بندی:
* اس کشیدگی کے بعد دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے۔
* امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مداخلت کی اور 10 مئی 2025 کو دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی ہو گئی۔ ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دشمنی ختم ہو گئی ہے اور دونوں ممالک امریکہ کی ثالثی میں طے پانے والے حالیہ سیزفائر سے “بہت خوش” ہیں۔
* آذربائیجان اور ترکی کو ایسے ممالک کے طور پر دیکھا گیا جنہوں نے تنازع میں پاکستان کی حمایت کی۔
دونوں ملکوں پر اثرات:
* سفارتی محاذ پر: دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف سخت سفارتی موقف اپنایا۔ انڈیا نے پاکستان کو جنگ کے دہانے پر دھکیلنے کا الزام لگایا جبکہ پاکستان نے انڈیا سے غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا، جسے انڈیا نے رد کر دیا۔
* عسکری محاذ پر: دونوں ممالک کی افواج ہائی الرٹ پر رہیں اور سرحدوں پر گولہ باری اور کراس بارڈر فائرنگ کی اطلاعات بھی آئیں۔
* معاشی محاذ پر: تجارتی پابندیوں اور فضائی حدود کی بندش سے دونوں ممالک کو معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور پر انڈین ایئرلائنز کو ماہانہ 10 ارب 13 کروڑ روپے کا نقصان ہونے کا تخمینہ لگایا گیا۔
* عوامی رائے: پاکستان میں عوام فوج کی حمایت میں کھڑے ہوئے، جس سے یہ تاثر زائل ہو گیا کہ عوام فوج سے دور ہو رہے ہیں۔
* تنازع کا حل: یہ 25 سالوں میں دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان پانچواں بڑا بحران تھا، اور ہر بار یہ بحران مزید پیچیدہ اور حل طلب ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ عارضی جنگ بندی ہو چکی ہے، لیکن کشمیر سمیت دیگر بنیادی مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔
مختصراً، پہلگام حملے نے دونوں ملکوں کو ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف عسکری اور سفارتی کشیدگی میں اضافہ ہوا بلکہ دونوں ممالک کی معیشتوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ عالمی ثالثی کے ذریعے عارضی جنگ بندی تو ہو گئی ہے، لیکن بنیادی مسائل کا حل اب بھی دور ہے۔