ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع کی جڑیں کافی گہری اور پیچیدہ ہیں۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان براہ راست کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ ابتدائی تعلقات (1947-1979): 1947 میں، ایران ان 13 ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اقوام متحدہ کی تقسیم فلسطین کی قرااقرأ المزيد
ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع کی جڑیں کافی گہری اور پیچیدہ ہیں۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان براہ راست کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔
ابتدائی تعلقات (1947-1979):
1947 میں، ایران ان 13 ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اقوام متحدہ کی تقسیم فلسطین کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ تاہم، ترکی کے بعد ایران اسرائیل کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک بنا۔ 1953 میں شاہ محمد رضا پہلوی کی دوبارہ بحالی کے بعد، دونوں ممالک کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی اور ان کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہو گئے۔ یہ تعلقات 1979 کے ایرانی انقلاب تک جاری رہے۔
ایرانی انقلاب اور دشمنی کا آغاز (1979 کے بعد):
1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد، صورتحال مکمل طور پر بدل گئی۔ آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں نئی مذہبی حکومت نے اسرائیل کو “صیہونی حکومت” قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت شروع کر دی اور فلسطینی کاز کی حمایت کی۔ یہیں سے دونوں ممالک کے درمیان براہ راست دشمنی کا آغاز ہوا۔
تنازع کی وجوہات اور اہم موڑ:
* فلسطینی کاز کی حمایت: ایران نے فلسطینی کاز کی بھرپور حمایت کی اور اسرائیل کو خطے میں ایک ناجائز قابض قوت قرار دیا۔
* اسرائیل کا وجودی خطرہ: ایران نے اسرائیل کو ایک وجودی خطرہ سمجھنا شروع کر دیا اور اس کے علاقائی اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات کیے۔
* پراکسی جنگیں: 1980 کی دہائی سے ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست جنگ کے بجائے پراکسی جنگ کا آغاز ہوا، جس میں دونوں ممالک خطے میں مختلف مسلح گروپوں کی حمایت کرتے ہیں۔
* حزب اللہ کا قیام: 1982 میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو ایران کے پاسداران انقلاب نے وہاں کے شیعہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر حزب اللہ کے قیام میں مدد کی۔ حزب اللہ اسرائیل کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئی ہے۔
* دیگر پراکسی گروپس: ایران نے خطے میں دیگر مسلح گروہوں جیسے حماس، اور یمن کے حوثی باغیوں کو بھی مدد فراہم کی، جو اسرائیل کے لیے خطرہ بنے۔
* ایرانی جوہری پروگرام: اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور اسے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہے۔ اسرائیل نے ایران کے جوہری سائنسدانوں پر حملوں اور جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے الزامات کا سامنا کیا ہے۔
* شام میں موجودگی: شام میں جاری خانہ جنگی میں ایران کی حمایت یافتہ فورسز کی موجودگی نے اسرائیل کی تشویش میں اضافہ کیا، جس کے بعد اسرائیل نے شام میں ایرانی اہداف پر متعدد فضائی حملے کیے۔
* حالیہ براہ راست حملے: حالیہ برسوں میں، خاص طور پر اپریل 2024 میں، دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر مبینہ اسرائیلی حملے کے بعد ایران نے اسرائیل پر براہ راست میزائل اور ڈون حملے کیے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔
مختصراً، ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد شروع ہوا، جب ایران نے اسرائیل کو ایک دشمن کے طور پر دیکھنا شروع کیا اور فلسطینی کاز کی حمایت میں اضافہ کیا۔ یہ تنازع پراکسی جنگوں، جوہری پروگرام کے خدشات اور خطے میں اثر و رسوخ کی جنگ کے ذریعے شدت اختیار کر چکا ہے۔
A telephone conversation recently took place between Prime Minister Narendra Modi of India and Prime Minister Benjamin Netanyahu of Israel on June 13, 2025. During the call, the primary topic of discussion was the evolving situation in the region, specifically following Israel's recent military operاقرأ المزيد
A telephone conversation recently took place between Prime Minister Narendra Modi of India and Prime Minister Benjamin Netanyahu of Israel on June 13, 2025.
قراءة أقلDuring the call, the primary topic of discussion was the evolving situation in the region, specifically following Israel’s recent military operations against Iran.
Key points of the discussion included:
* **Netanyahu briefed Modi on recent developments: Netanyahu informed Modi about the ongoing Israeli strikes on Iranian military and nuclear facilities, which Israel has termed “Operation Rising Lion.” He reportedly emphasized Israel’s defense needs in the face of what it perceives as an existential threat from Iran.
* Modi conveyed India’s concerns: Prime Minister Modi expressed India’s concerns over the situation and emphasized the urgent need for the early restoration of peace and stability in the region.
* Call for de-escalation and diplomacy: Both leaders acknowledged the gravity of the situation. India, through Modi, urged both sides to avoid any escalatory steps and to utilize existing channels of dialogue and diplomacy to work towards de-escalation and resolving underlying issues.
* India’s commitment to peace and offer of support: India reaffirmed its commitment to global peace efforts and expressed its readiness to extend all possible support to de-escalate tensions, given its close and friendly relations with both Iran and Israel.
* Advisory for Indian nationals: India also advised its nationals in the region to exercise caution, stay safe, and follow local security advisories.
In essence, the conversation focused on the escalating tensions between Israel and Iran, with Netanyahu explaining Israel’s actions and Modi stressing the need for peace, stability, and diplomatic resolution.