هل نسيت كلمة المرور؟ الرجاء إدخال بريدك الإلكتروني، وسوف تصلك رسالة عليه حتى تستطيع عمل كلمة مرور جديدة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن السؤال.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن الإجابة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن المستخدم.
سالہ ذاکر نائیک کا 430 فٹ بلندی سے بنجی جمپ کا حیرت انگیز مظاہرہ؛
انڈٖونیشیا کے شہر بالی کے خوبصورت ترین سیاحتی مقام پر ممتاز اسلامی اسکالر اور تقابل ادیان کے ماہر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے قدرے خطرناک اور حیرت انگیز کرتب کرکے اپنے فالورز کو حیران کردیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق انڈونیشیا کے مشہور سیاحتی جزیرے نوسا پینیڈا کے ساحل ٹرٹل بیچ پر فطری حسن اور مہم جو سرگاقرأ المزيد
انڈٖونیشیا کے شہر بالی کے خوبصورت ترین سیاحتی مقام پر ممتاز اسلامی اسکالر اور تقابل ادیان کے ماہر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے قدرے خطرناک اور حیرت انگیز کرتب کرکے اپنے فالورز کو حیران کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق انڈونیشیا کے مشہور سیاحتی جزیرے نوسا پینیڈا کے ساحل ٹرٹل بیچ پر فطری حسن اور مہم جو سرگرمی ایک ساتھ دیکھنے کو ملی۔
یہ مہم جو کوئی اور نہیں بلکہ عالمی شہرت رکھنے والے اسکالر 59 سالہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے مکمل مہارت اور تمام تر حفاظتی اقدامات کے ساتھ پُر اعتماد انداز میں انجام دی۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جس بلندی سے بنجی جمپ لگانے کا مظاہرہ کیا وہ 430 فٹ اونچی تھی۔ وہ کافی دیر ہوا میں معلق رہے گویا فضاؤں میں تیر رہے ہوں۔ وہ اپنی ویڈیو بھی بناتے رہے۔
قراءة أقلکیا آپ بھی سوشل میڈیا پر بغیر تصدیق کے پوسٹ شیئر کرتے ہیں؟ امام کعبہ نے خبردار کر دیا
امام کعبہ نے جعلی فتوے اور علما کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کو اسلام دشمن مہم کا حصہ قرار دیا
امام کعبہ نے جعلی فتوے اور علما کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کو اسلام دشمن مہم کا حصہ قرار دیا
قراءة أقلکیا آپ بھی سوشل میڈیا پر بغیر تصدیق کے پوسٹ شیئر کرتے ہیں؟ امام کعبہ نے خبردار کر دیا
مکہ مکرمہ: مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ یاسر الدوسری نے اپنے خطبہ جمعہ میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر شدید تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان کسی بھی خبر کو شیئر کرنے سے قبل اس کی تصدیق کریں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جھوٹے یا خریدے گئے اکاؤنٹس کے ذریعے جعلی فتوے اور من گھڑت بیانات معاشرے میں فساد ااقرأ المزيد
مکہ مکرمہ: مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ یاسر الدوسری نے اپنے خطبہ جمعہ میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر شدید تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان کسی بھی خبر کو شیئر کرنے سے قبل اس کی تصدیق کریں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ جھوٹے یا خریدے گئے اکاؤنٹس کے ذریعے جعلی فتوے اور من گھڑت بیانات معاشرے میں فساد اور علما کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔
شیخ الدوسری نے کہا کہ سوشل میڈیا پر شائع یا شیئر کی گئی ہر بات کا جواب روز قیامت اللہ کے حضور دینا ہوگا۔ انہوں نے ایسے اکاؤنٹس کو خطرناک قرار دیا جو دانستہ طور پر جھوٹ پھیلا کر معاشرتی انتشار پیدا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسمارٹ فونز کا غلط استعمال اب لوگوں کو قریب لانے کے بجائے تنہائی، حسد اور ناشکری کو فروغ دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا جعلی زندگیوں اور بے جا تقابل کا ذریعہ بن چکا ہے، جو روحانی و معاشرتی بیماریوں کو جنم دے رہا ہے۔
امام کعبہ نے جعلی فتوے اور علما کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کو اسلام دشمن مہم کا حصہ قرار دیا اور مسلمانوں کو محتاط رہنے کی تلقین کی۔
قراءة أقل'۔۔۔خوش آتی ہیں روٹیاں'
کلچہ کے لیے بھی خمیر کی ضرورت ہوتی ہے
کلچہ کے لیے بھی خمیر کی ضرورت ہوتی ہے







قراءة أقل'۔۔۔خوش آتی ہیں روٹیاں'
ہندوستان کی عام غذا روٹی ہے اور شاید اسی لیے مشہور کہاوت ہے: 'دال روٹی کھاؤ، پربھو کے گن گاؤ' سالن ہو یا قورمہ، ترکاری ہو یا دال، ہمارا پیٹ روٹی ہی سے بھرتا ہے۔ امیر غریب ہرایک کا گزر روٹی پر ہے۔ روٹی اکثر پورے کھانے کی نمائندگی کرتی ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ 'آؤ روٹی کھالو' یا 'میں روٹی کھا کر آیا ہوں'اقرأ المزيد
ہندوستان کی عام غذا روٹی ہے اور شاید اسی لیے مشہور کہاوت ہے: ‘دال روٹی کھاؤ، پربھو کے گن گاؤ’
سالن ہو یا قورمہ، ترکاری ہو یا دال، ہمارا پیٹ روٹی ہی سے بھرتا ہے۔ امیر غریب ہرایک کا گزر روٹی پر ہے۔ روٹی اکثر پورے کھانے کی نمائندگی کرتی ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ ‘آؤ روٹی کھالو’ یا ‘میں روٹی کھا کر آیا ہوں’ تو اس سے مراد کھانا ہوتا ہے۔
روٹی عموما گندم کے آٹے کی ہوتی ہے جسے چپاتی یا پھلکے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دوسری اقسام کی روٹیاں، نفاست، امارت نیز شوق و تنوع کی پیداوار ہیں۔ ان کے بنانے کا طریقہ ذرا مختلف ہو جاتا ہے۔ کچھ روٹیاں بیل کر بنائي جاتی ہیں تو کچھ ہاتھ پر تھپک کر۔ روٹی چپاتی ہو یا پھلکا، ان کے بنانے میں ہنرمندی کی ضرورت ہے۔
اچھی روٹی کے لیے آٹا گوندھنا بھی اچھے باورچی کا کام ہے ورنہ اچھی روٹی نہ ہونے سے سارے کھانے کا مزہ جاتا رہتا ہے روٹی کی دوسری قسم پراٹھا ہے۔ چونکہ پراٹھا گھی سے تر ہوتا ہے اس لیے سردیوں کے موسم میں اس کی بہار ہے۔
مختلف قسم کے ساگ، مولی، گوبھی اور دال سے بھرے پراٹھے دہی کے ساتھ بڑے مزے سے کھائے جاتے ہیں۔ پرانی دلی میں تو ایک پوری گلی پراٹھوں کے نام سے منسوب ہے اور پراٹھے والی گلی کہلاتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے لکھنؤ کا شیرمال بازار۔
چپاتی، پراٹھے، پھلکا اور پوری بنانے میں خمیر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ گرم گرم پوری جب کڑھائي سے نکلتی ہے تو بے ساختہ ہاتھ آکے بڑھ جاتا ہے اور ساتھ ہی اگر کٹوری میں دہی سے بنی آلو کی ترکاری مل جائے تو دن بھر کھانے کی فرصت ہو جاتی ہے۔
عام طور پر پوری اور سبزی کا میل ناشتے کے لیے موزوں ہے۔ اسی طرح جیسے شمالی ہند بالخصوص لکھنؤ کے مضافات میں ٹکیہ (خستہ روٹی) اور آلو کی سبزی۔
پوری بنانے میں بھی ہنرمندی کی ضرورت ہے ورنہ وہ پچک کر رہ جاتی ہے۔ پوری رنگ برنگي ہو تو کھانے کا لطف بڑھ جاتا ہے۔
ہرے ساگ میں گندھے آٹے سے ہری پوری حاصل ہوتی ہے تو چقندر میں گندھے آٹے سے لال اور طبق میں سجی سہ رنگی پوری دسترخوان کی زینت کو دوبالا کرتی ہے۔
بعض روٹیاں ایسی ہیں جن میں خمیر کی آمیزش ضروری ہے۔
جیسے نان اور کلچہ، نان اصلا مغلوں کی میراث ہے۔ روٹیوں کا سفر ہندوستان میں مغلوں کی آمد سے شروع ہوا اور ہندوستانی نانبائیوں کے ہاتھوں آگے بڑھتا گیا۔ آج ہندوستان میں انواع و اقسام کی بے شمار روٹیاں بازار میں دستیاب ہیں، جن کا بنانا گھر میں ذرا مشکل ہے
چائے، زندگی کی لہر
چائے کی کاشت کے لیے آسام کی سرزمین کو انتہائی معقول پایا گيا
چائے کی کاشت کے لیے آسام کی سرزمین کو انتہائی معقول پایا گيا



قراءة أقلچائے، زندگی کی لہر
صبح سویرے آنکھ کھلتے ہی گرم گرم چائے کی پیالی زندگی کو ایک نئی نوید دیتی ہے۔ شہر کا بابو ہو یا گاؤں کا کسان، عورت ہو یا مرد چائے کے دو گھونٹ ہی نئی صبح کا آغاز ہیں۔ خدا انھیں سلامت رکھے جنھوں نے ہمیں یہ مشروب فراہم کرایا۔ دودھ دہی کی ندیوں میں بہتا یہ ملک انگریزوں کی بدولت ہری ہری پتیوں سے تیار اس ماقرأ المزيد
صبح سویرے آنکھ کھلتے ہی گرم گرم چائے کی پیالی زندگی کو ایک نئی نوید دیتی ہے۔ شہر کا بابو ہو یا گاؤں کا کسان، عورت ہو یا مرد چائے کے دو گھونٹ ہی نئی صبح کا آغاز ہیں۔ خدا انھیں سلامت رکھے جنھوں نے ہمیں یہ مشروب فراہم کرایا۔
دودھ دہی کی ندیوں میں بہتا یہ ملک انگریزوں کی بدولت ہری ہری پتیوں سے تیار اس مشروب کا غلام بن کر رہ گیا۔ لیکن چائے تو چین کی میراث ہے پھر یہ انگریزوں کے ہاتھ کیسے لگی اور ہندوستان کی سرزمین تک کیسے پہنچی یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔
19 ویں صدی میں انگریزوں نے ہندوستان میں چائے کی بیج ڈالے اور نتیجہ اس قدر زبردست نکلا کہ آج چائے کی پیداوار اور برامدات میں ہندوستان کا صف اول میں شمار ہوتا ہے۔
چین چائے کی پیداوار میں سب سے آگے تھا اور انگریز چین کی اس برتری کو ختم کرنے کے درپے تھے۔ اس کی نظر آسام کے بالائی علاقوں پر جا ٹھہری جہاں کی آب و ہوا چائے کے لیے بے حد مناسب تھی چین سے چائے کو پود کے ساتھ سنگاپور سے چینی نژاد مزدور بلوائے گئے اور زمین کو ہموار کرنے کا کام شروع کردیا گيا۔ یہ مزدور اس کام میں ناکام رہے اور بالآخر زمین کو ہندوستانی مزدوروں نے ہموار کیا اور چائے کی کاشت کا آغاز ہوا۔
انگریزی حکومت نے حصول مقصد کے لیے یہ اعلان کیا کہ جو انگریز چائے کے باغ لگانے میں دلچسپی رکھتا ہے اسے زمین مفت دی جائے گی۔ جلد ہی آسام کا یہ علاقہ چائے کے باغات سے سرسز ہو گيا۔
ان باغات میں کام کرنے والے ہندوستانی مزدور تھے اور ان پر حکومت کرنے والے انگریز بہادر، جن کی زندی عیش و آرام سے بھرپور، بڑے بڑے آرامدہ مکان، نوکر چاکر، گولف کے ٹورنامنٹ، ٹینس کے مقابلے، رقص و سرود کی محفلیں، ہر کوئی متمنی تھا کہ چائے کے باغات کی ذمہ داری اسے مل جائے۔
لیکن انگریزوں کے ہندوستان سے رخصت ہوتے ہی یہ بہار بھی رخصت ہوئی۔ مارواڑی تاجر اب ان کے نئے مالک تھے جنھیں نفع خوری کے علاوہ کسی چیز سے سروکار نہیں تھا۔عیش و عشرت کا دور ختم ہوا اور مزدور اور منیجر کام کی چکی میں پس کر رہ گئے۔
وقت کے ساتھ ہندوستان کی چائے نے چین کی چائے پر فوقیت حاصل کر لی۔ آسام کی چائے کے ساتھ دوسرے مناطق کی چائے بھی اس دوڑ میں شامل ہوتی گئيں اور آج ہندوستان میں بے شمار چائے کمپنیاں ہیں جن میں بروک بونڈ، لپٹن اور تاج محل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ہندوستان میں چائے عموما دو وقت پی جاتی ہے۔ صبح نئے دن کی ابتدا کے ساتھ اور شام کو دن بھر کی تھکن دور کرنے کے لیے۔ دوپہر یا شام کی چائے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔
دیوالی روشنی کا ہی نہیں مٹھائیوں کا تہوار بھی ہے
حفے میں بھی مٹھائیاں دی جاتی ہیں اور پوجا میں بھی ان کا استعمال ہوتا ہے
حفے میں بھی مٹھائیاں دی جاتی ہیں اور پوجا میں بھی ان کا استعمال ہوتا ہے



قراءة أقلدیوالی روشنی کا ہی نہیں مٹھائیوں کا تہوار بھی ہے
سال میں ایک بار آنے والا دیوالی کا تہوار انڈیا کو جنت نشان بنا دیتا ہے۔ روشنی سے ملک کا چپہ چپہ جگمگا اٹھتا ہے۔ ٹمٹماتے مٹی کے دیے، جلتی بجھتی رنگین بتیوں سے سجی عمارتیں، موم بتیوں کی مدھم روشنی، غرض نور کی بارش کا سماں۔ روشنیوں میں ڈوبا قطعۂ زمین کا یہ حصہ پرستان معلوم ہوتا ہے۔ دیوالی ہندوؤں کا سباقرأ المزيد
سال میں ایک بار آنے والا دیوالی کا تہوار انڈیا کو جنت نشان بنا دیتا ہے۔ روشنی سے ملک کا چپہ چپہ جگمگا اٹھتا ہے۔ ٹمٹماتے مٹی کے دیے، جلتی بجھتی رنگین بتیوں سے سجی عمارتیں، موم بتیوں کی مدھم روشنی، غرض نور کی بارش کا سماں۔ روشنیوں میں ڈوبا قطعۂ زمین کا یہ حصہ پرستان معلوم ہوتا ہے۔
دیوالی ہندوؤں کا سب سے بڑا تہوار ہے اور دنیا بھر میں اس مذہب کے پیروکار بڑے جوش و جذبے کے ساتھ اسے مناتے ہیں۔
دیوالی دراصل دیپاولی کا مختصر نام ہے جس کے لغوی معنی دیوں کی قطار ہوتا ہے اور اس لیے اسے روشنیوں کا تہوار کہا جاتا ہے۔ ہندوستان کا ہر تہوار تاریخی، مذہبی اور ثقافتی پس منظر رکھتا ہے اور دیوالی بھی اس سے علیحدہ نہیں۔
دیوالی کی سب سے عام اور معروف کہانی ایودھیا کے شہزادے رام اور ان کی شریک حیات رانی سیتا کی 14 سال کی جلاوطنی کے بعد ایودھیا لوٹنے کی ہے جب سارا شہر ان کے استقبال کے لیے امڈ پڑا تھا اور ایودھیا کے چپے چپے سے روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ آج بھی لوگ رام کی اس واپسی کا جشن دل کھول کر مناتے ہیں۔ دیوالی سے جڑی اور بھی کہانیاں ہیں جن سے شاید عام آدمی واقف نہیں۔ کہتے ہیں راجا کسور نامی ایک راجا تھا، وہ بڑا ظالم اور ہوس پرست۔ حسین نوجوان دوشیزاؤں کو اغوا کر کے اپنی ہوس کا نشانہ بنانا پھر انھیں جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے قید کر دینا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ ہندو مذہب کے ایک دیوتا وشنو نے بھگوان کرشن کا روپ دھار کر دیوالی کے دن دنیا کو اس ظالم سے راجا سے نجات دلائی۔
کافی ہم تک کیسے پہنچی؟
کافی کے دنیا میں پھیلنے کے پس پشت بہت سی دلچسپ کہانیاں ہیں
کافی کے دنیا میں پھیلنے کے پس پشت بہت سی دلچسپ کہانیاں ہیں



قراءة أقل