تسجيل دخول تسجيل دخول

تواصل مع جوجل
أو استخدم

هل نسيت كلمة المرور؟

لا تملك عضوية، ‫تسجيل جديد من هنا

نسيت كلمة المرور نسيت كلمة المرور

هل نسيت كلمة المرور؟ الرجاء إدخال بريدك الإلكتروني، وسوف تصلك رسالة عليه حتى تستطيع عمل كلمة مرور جديدة.

هل لديك عضوية؟ تسجيل دخول الآن

‫‫‫عفوًا، ليس لديك صلاحيات لإضافة سؤال, يجب تسجيل الدخول لتستطيع إضافة سؤال.

تواصل مع جوجل
أو استخدم

هل نسيت كلمة المرور؟

تحتاج إلى عضوية، ‫تسجيل جديد من هنا

‫‫‫عفوًا، ليس لديك صلاحيات لإضافة سؤال, يجب تسجيل الدخول لتستطيع إضافة سؤال.

تواصل مع جوجل
أو استخدم

هل نسيت كلمة المرور؟

تحتاج إلى عضوية، ‫تسجيل جديد من هنا

برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن السؤال.

برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن الإجابة.

برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن المستخدم.

تسجيل دخولتسجيل

Nuq4

Nuq4 اللوجو Nuq4 اللوجو
بحث
أسأل سؤال

قائمة الموبيل

غلق
أسأل سؤال
  • Nuq4 المحل
  • تصبح عضوا

Ali1234

الباحث
اسأل Ali1234
0 ‫متابع
1ألف سؤال
  • عن
  • الأسئلة
  • إجابات
  • أفضل الإجابات
  • المفضلة
  • المجموعات
  • انضم إلى المجموعات

Nuq4 الاحدث الأسئلة

  • 0
Ali1234الباحث

کیٹی پیری کے سابق منگیتر کا سابق کینیڈین وزیراعظم کیساتھ تعلقات پر ردعمل

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم أغسطس 4, 2025 في 1:54 am

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق کیٹی پیری اور جسٹن ٹروڈو کے درمیان تعلقات کی افواہوں کا آغاز اس وقت ہوا جب کیٹی پیری کو اورلینڈو بلوم سے علیحدگی کے کچھ ہی ہفتوں بعد کینیڈا میں جسٹن ٹروڈو کے ہمراہ مختلف مواقع پر دیکھا گیا، جن میں مونٹریال میں ایک ڈنر اور کیٹی کے کنسرٹ میں ٹروڈو کی شرکت شامل ہے۔ اسی دور‫اقرأ المزيد

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق کیٹی پیری اور جسٹن ٹروڈو کے درمیان تعلقات کی افواہوں کا آغاز اس وقت ہوا جب کیٹی پیری کو اورلینڈو بلوم سے علیحدگی کے کچھ ہی ہفتوں بعد کینیڈا میں جسٹن ٹروڈو کے ہمراہ مختلف مواقع پر دیکھا گیا، جن میں مونٹریال میں ایک ڈنر اور کیٹی کے کنسرٹ میں ٹروڈو کی شرکت شامل ہے۔

    اسی دوران ایک غیر ملکی ویب سائٹ “دی انیئن” نے ایک فرضی خبر شائع کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اورلینڈو بلوم اب جرمنی کی سابق چانسلر انجیلا مرکل کو ڈیٹ کر رہے ہیں۔

    شائع ہونے والے اس مضمون میں رومانوی شام، سیپیاں، چاکلیٹ کیک اور مرکل کے لطیفوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اے آئی سے تیار کردہ تصویر بھی شامل تھی جس میں دونوں موم بتیوں کی روشنی میں ڈنر کرتے دکھائے گئے۔

    بلوم نے اس مذکورہ ویب سائٹ کی اس خبر پر دفاعی ردِ عمل دینے کے بجائے مزاح کا حصہ بنتے ہوئے تبصروں میں صرف تین تالیوں والے ایموجیز پوسٹ کیے۔

    واضح رہے کہ بلوم اور پیری نے جولائی میں علیحدگی کی تصدیق کی تھی، جبکہ جسٹن ٹروڈو بھی گزشتہ برس اپنی اہلیہ سے علیحدہ ہو چکے ہیں

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • إجابتين
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

پاکستان کرکٹ ٹیم کو حفیظ کاردار یا عمران خان جیسا سخت گیر کپتان ہی کیوں چاہیے؟

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم أغسطس 4, 2025 في 1:49 am

    پاکستان کرکٹ بورڈ کے پہلے صدر جسٹس اے آر کارنیلئیس نے جب پاکستان کی نوزائیدہ کرکٹ ٹیم کی قیادت میاں سعید سے واپس لے کر عبدالحفیظ کاردار کو تھمائی تو اس فیصلے کے کئی دور رس مضمرات تھے جنھیں آنے والے عشروں میں اس کرکٹ کلچر کی سمت طے کرنا تھی۔ دیگر کھیلوں کے برعکس کرکٹ میں کپتان فیلڈ پر اپنے گیارہ کھلا‫اقرأ المزيد

    پاکستان کرکٹ بورڈ کے پہلے صدر جسٹس اے آر کارنیلئیس نے جب پاکستان کی نوزائیدہ کرکٹ ٹیم کی قیادت میاں سعید سے واپس لے کر عبدالحفیظ کاردار کو تھمائی تو اس فیصلے کے کئی دور رس مضمرات تھے جنھیں آنے والے عشروں میں اس کرکٹ کلچر کی سمت طے کرنا تھی۔

    دیگر کھیلوں کے برعکس کرکٹ میں کپتان فیلڈ پر اپنے گیارہ کھلاڑیوں کا حتمی انچارج ہوتا ہے اور اپنی سربراہی میں وہ نہ صرف اپنی ٹیم بلکہ پوری قوم کے کرکٹ کلچر کی سمت متعین کرتا ہے۔

    کاردار اگرچہ میاں سعید جیسے خام ٹیلنٹ نہیں تھے مگر انھیں لاہور کی گلیوں میں پلے بڑھے میاں سعید پر ثقافتی برتری حاصل تھی کہ وہ آکسفرڈ کے پڑھے ہوئے تھے اور برطانیہ میں بھی کرکٹ کھیل چکے تھے۔

    کاردار کی قیادت میں پاکستان وہ ٹیسٹ ٹیم بنی جس نے پاکستان کے دورے پر آئی ایم سی سی (انگلینڈ) کی ٹیم کو شکست دے کر پہلے ٹیسٹ سٹیٹس حاصل کیا اور پھر اپنے دوسرے ہی ٹیسٹ میں انڈیا کے خلاف لکھنؤ میں ایک تاریخی فتح حاصل کر لی۔ کاردار ایک آمرانہ مزاج، نظم و ضبط کے پابند اور ٹریننگ میں زیرو ٹالرینس پالیسی پر کاربند کپتان تھے۔ ان کی سربراہی میں پاکستان کرکٹ کی جو پہلی فصل تیار ہوئی، اس نے انٹرنیشنل سٹیٹس ملنے کی پہلی ہی دہائی میں جنوبی افریقہ کے سوا تمام ٹیسٹ ممالک کے خلاف کم از کم ایک میچ اپنے نام کیا۔ (جنوبی افریقی ٹیم تب صرف سفید فام اقوام کے خلاف کھیلا کرتی تھی۔

    پاکستان جیسے متنوع کلچر میں ایسی ٹیم کی قیادت کرنا آسان نہیں جس کی اکثریت عموماً اچھی تعلیم اور عمدہ مالی بیک گراؤنڈ کی حامل نہیں ہوا کرتی۔ جو خام ٹیلنٹ اپنی ناپختگی کی پُرجوش دلیل لے کر اس ڈریسنگ روم میں داخل ہوتا ہے، اسے تراشنا بہرحال کپتان اور کوچ کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔

    کاردار کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب پاکستان کی ناکامیوں کا سلسلہ بڑھنے لگا تو بورڈ نے ایک اور کاردار بنانے کا فیصلہ کیا اور ایچیسن کے تعلیم یافتہ جاوید برکی کو کپتان بنایا گیا۔ گو برکی بطور کپتان موثر نہ رہے مگر کچھ مدت بعد بورڈ نے ایک اور کاردار متعارف کروایا جس نے بالآخر پاکستان کو 1992 کا ورلڈ کپ دلوایا

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • إجابتين
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

کروڑوں کا کمرشل ٹائم اور اربوں کی سرمایہ کاری: پاکستان اور انڈیا کا میچ براڈکاسٹرز کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم أغسطس 4, 2025 في 1:44 am

    انڈیا کی جانب سے پاکستان میں آ کر چیمپیئنز ٹرافی کھیلنے سے انکار اور اس کے ردعمل میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اختیار کیے گئے ’سخت مؤقف‘ کے بعد جہاں چیمپیئنز ٹرافی کے انعقاد کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں ایک سوال یہ بھی ہے کہ آیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ منعقد ہو بھی پائے گ‫اقرأ المزيد

    انڈیا کی جانب سے پاکستان میں آ کر چیمپیئنز ٹرافی کھیلنے سے انکار اور اس کے ردعمل میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اختیار کیے گئے ’سخت مؤقف‘ کے بعد جہاں چیمپیئنز ٹرافی کے انعقاد کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں ایک سوال یہ بھی ہے کہ آیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ منعقد ہو بھی پائے گا یا نہیں؟

    یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ سنہ 2011 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں انڈیا سے سیمی فائنل میں شکست کے بعد سے دونوں ٹیموں کے درمیان لگاتار 10 آئی سی سی ٹورنامنٹس میں کم از کم ایک میچ تو ضرور ہوا ہے اور ایسا ہونا محض اتفاق نہیں تھا۔

    سنہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان نے انڈیا سے گروپ مرحلے میں شکست کھائی تھی لیکن فائنل میں انڈیا کو ہرا کر ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔ تاہم اس ایونٹ سے پہلے تو پاکستان کی اس میں شرکت پر بھی سوالیہ نشان تھے کیونکہ اس وقت پاکستان آئی سی سی رینکنگز میں پہلی آٹھ ٹیموں میں شامل نہیں تھا۔

    اُس وقت کے آئی سی سی چیئرمین ڈیو رچرڈسن نے ایونٹ سے پہلے برطانوی جریدے ’ٹیلی گراف‘ سے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ آئی سی سی اِس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کو ایک ہی گروپ میں رکھا جائے۔  انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ (میچ) آئی سی سی کے نقطۂ نظر سے انتہائی اہم ہے۔ یہ دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے اور مداح ابھی سے اس کا انتظار بھی کرنے لگے ہیں۔ یہ ٹورنامنٹ کے لیے بھی بہترین ہے کیونکہ یہ اس کی مقبولیت میں اضافہ کرنے کے لیے اہم ہے

    اس معاملے میں کرکٹ براڈکاسٹرز، یعنی میری اور آپ کی ٹی وی اور فون سکرینز پر میچ دکھانے والوں کا ووٹ بھی انتہائی اہم رہا ہے۔

    آئی سی سی کی جانب سے جاری اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلے گئے متعدد میچز تاریخ میں سب سے زیادہ دیکھنے جانے والے میچوں میں سے ایک رہے ہیں۔

    یہ اعداد و شمار عموماً انڈیا کی مارکیٹ سے لیے جاتے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بھی اس میچ کی ویورشپ بہت زیادہ رہتی ہے اور اس کا کمرشل ایئرٹائم ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں انتہائی قیمتی سمجھا جاتا ہے۔

    لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ کیا آئی سی سی کے لیے واقعی اتنے اہم ہیں جتنے پاکستان میں کچھ تجزیہ کاروں کی جانب سے بتائے جا رہے ہیں؟

    اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے پاکستان اور انڈیا اس کرکٹ براڈکاسٹرز، ایڈورٹائزرز اور اس سے متعلقہ معاملات پر رپورٹ کرنے والوں سے بات کی ہے۔ لیکن اس سب سے پہلے تاریخ کے اُس موڑ پر جاتے ہیں جب کرکٹ چلانے والوں کو آئی سی سی ٹورنامنٹس کی کامیابی کے لیے ایک ارب کی آبادی والے ملک انڈیا کی اہمیت کا صحیح معنوں میں ادراک ہوا تھا

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • إجابتين
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

دماغ ماؤف کر دینے والے روایتی ٹاکرے میں پاکستان کے لیے انڈیا کو ہرانا اتنا مشکل کیوں رہا ہے؟

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم أغسطس 4, 2025 في 1:41 am

    دماغ ماؤف ہے، دل گھبراتا ہے۔۔۔ آج تک اس معمے کو کوئی حل نہیں کر سکا کہ جب بھی پاکستان ٹیم انڈیا سے معمول کا کرکٹ میچ کھیلتی ہے، تو کھلاڑی شیر بن کر لڑتے ہیں مگر جب آئی سی سی کے مقابلے میں دونوں ٹیمیں آمنے سامنے ہوتی ہیں تو ان کھلاڑیوں کو کیا ہو جاتا ہے۔ 'نان ورلڈ کپ فکسچر میں ان سے چھکے بھی لگتے ہیں‫اقرأ المزيد

    دماغ ماؤف ہے، دل گھبراتا ہے۔۔۔ آج تک اس معمے کو کوئی حل نہیں کر سکا کہ جب بھی پاکستان ٹیم انڈیا سے معمول کا کرکٹ میچ کھیلتی ہے، تو کھلاڑی شیر بن کر لڑتے ہیں مگر جب آئی سی سی کے مقابلے میں دونوں ٹیمیں آمنے سامنے ہوتی ہیں تو ان کھلاڑیوں کو کیا ہو جاتا ہے۔

    ‘نان ورلڈ کپ فکسچر میں ان سے چھکے بھی لگتے ہیں اور یہی وکٹیں بھی اڑاتے ہیں، لیکن ادھر میچ کے ساتھ ‘آئی سی سی’ اور ‘ورلڈکپ’ لگ جائے تو اکثر چھکے بھی چھوٹ جاتے ہیں اور طوطے بھی اڑ جاتے ہیں۔

    پچاس اوورز کی محدود کرکٹ میں دونوں ٹیموں کا ایک سو پینتیس بار ٹاکرا ہوا ہے اور پانچ بے نتیجہ میچز کو نکال کر، پاکستان کا پلہ بھاری ہی رہا ہے جس نے ایک سو تیس میں سے تہتر مرتبہ فتح سمیٹی ہے۔

    آئی سی سی کے ٹورنامنٹ کے اکیس میچوں میں (بشمول ٹی ٹوئنٹی) یہی ٹیم صرف چار میچ جیت سکی ہے۔ تھوڑا ماضی میں جا کر دیکھیں تو کوئی نہ کوئی سرا مل تو سکتا ہے جہاں سے خرابی کا پتہ چلے بی بی سی اردو کے لیے صحافی محمد صہیب نے ان ‘آئی سی سی’ میچوں کی شکستوں پر سابق ٹیسٹ کپتان اور مایہ ناز وکٹ کیپر، معین خان سے بات کی ہے۔

    معین خان 1992 میں پاکستان کی فاتح ٹیم کا حصہ تھے اور 1999 کے عالمی کپ کے بہترین وکٹ کیپر بھی قرار پائے تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ‘جب دو ٹیمیں کھیلتی ہیں تو ایک ہی جیتتی ہے مگر ایسی ‘مسابقت’ میں جو چیز آپ کے اعصاب کو مجروح کرتی ہے وہ دباؤ ہوتا ہے۔ آئی سی سی ورلڈ کپ کے میچز میں صرف پریشر ہوتا ہے اور کوئی بات نہیں۔’

    انھوں نے کہا کہ ‘پاکستان اور انڈیا کا میچ ہمیشہ پریشر والا ہوتا ہے۔ سنہ بانوے کی ٹیم کو لے لیں، اس ٹیم کا ہر پلئیر ایک میچ ونر ہوتا تھا۔’

    انھوں نے مزید کہا کہ ‘سڈنی میں انڈیا سے پہلی بار کسی ورلڈ کپ کا میچ کھیل رہے تھے تو دوسو سترہ کے تعاقب میں وکٹیں وقفے وقفے سے گر رہی تھیں اور کہیں بھی ایک بڑی پارٹنرشپ نہیں لگ سکی تھی جس کے باعث ہم وہ میچ ہار گئے۔’

    معین خان 1999 کے عالمی کپ میں اپنی زندگی کی بہترین فارم میں تھے، دھواں دھار بیٹنگ میں یا تو جنوبی افریقہ کے لانس کلوزنر کا بلا چنگھاڑ رہا تھا یا معین خان کا۔ جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، انڈیا ہو یا سکاٹ لینڈ، وہ وکٹ کے پیچھے اور آگے بھی بہترین کارکردگی دکھا رہے تھے۔

    ایک سو دس کے سٹرائیک ریٹ سے انھوں نے دو سو بیالیس رنز سکور کیے تھے۔ انڈیا کے خلاف میچ میں جب وہ اونچا شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے تو اس وقت پاکستان کو سولہ اوورز میں ایک سو چار رنز درکار تھے۔

    معین خان اس میچ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’99 میں مانچسٹر میں بھی ہم ہار گئے تھے، بڑا کلوز میچ ہوا تھا، بڑی کوشش کی تھی ہم نے۔۔ جب میں آؤٹ ہوا تھا اس وقت ہم میچ جیت رہے تھے۔ آپ غلطی کہہ لیں اس کو یا اپنے مخالف کی اچھی کارکردگی لیکن ہمارے دماغ میں یہی تھا کہ کسی طرح پاکستان کو جتانا ہے اور یہ جو ایک مارک لگا ہوا تھا پاکستان ٹیم کے اوپر کہ ہم آئی سی سی کے میچز میں ہار جاتے ہیں، وہ ہٹانا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • إجابتين
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کون ہیں اور ان کا خاندان کتنا بااثر ہے؟

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم أغسطس 4, 2025 في 1:35 am

    امریکی میڈیا کے مطابق حالیہ ایران اسرائیل تنازع کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کا ایک اسرائیلی منصوبہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ کوئی ’اچھا خیال نہیں ہے۔‘ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے ایران پر حالیہ حملوں کا مقصد ایران کی جوہری صلاحیتوں سے ا‫اقرأ المزيد

    امریکی میڈیا کے مطابق حالیہ ایران اسرائیل تنازع کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کا ایک اسرائیلی منصوبہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ کوئی ’اچھا خیال نہیں ہے۔‘

    اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے ایران پر حالیہ حملوں کا مقصد ایران کی جوہری صلاحیتوں سے اسرائیل کی سلامتی کو لاحق خطرات کو دور کرنا ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کہتے ہیں کہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تہران میں برسرِ اقتدار رجیم تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے قبل انھوں نے ایرانی عوام سے اپیل کی تھی وہ اپنے لیڈروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

    اس تناظر میں ہم دیکھیں گے کہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ کون ہیں اور ان کے پاس کتنی طاقت ہے۔ اس کے علاوہ، آیت اللہ خامنہ ای کے خاندان کا ایران کی سیاست میں کیا کردار ہے۔ آیت اللہ علی خامنہ ای 1979 کے انقلاب کے بعد ایران کے رہبرِ اعلیٰ بننے والے دوسرے شخص ہیں۔ وہ 1989 سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ بہت سے نوجوان ایرانیوں نے ہمیشہ سے انھیں ہی اس کردار میں دیکھا ہے۔

    آیت اللہ خامنہ ای 1939 میں ایران کے دوسرے سب سے بڑے شہر مشہد کے ایک مذہبی خاندان میں ہیدا ہوئے۔ وہ اپنے بھائی بہنوں میں دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کے والد ایک درمیانے درجے کے شیعہ عالم تھے۔

    انھوں نے بچپن میں مذہبی تعلیم حاصل کی اور 11 برس کی عمر میں وہ ایک عالم کے طور پر اہل ہو گئے تھے۔

    اپنے دور کے دیگر عالموں کی طرح، ان کے کام کی نوعیت مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی بھی تھی۔

    بطور ایک بااثر خطیب، وہ شاہِ ایران کے نقادوں میں شامل ہو گئے۔ بالآخر 1979 کے اسلامی انقلاب کے نتیجے میں ایران کے شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا۔

    خامنہ ای کئی برسوں تک روپوش رہے اور انھیں جیل بھی کاٹنی پڑی۔ شاہِ ایران کی خفیہ پولیس نے انھیں چھ مرتبہ گرفتار کیا اور انھیں تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

    1979 کے انقلاب کے ایک سال بعد، آیت اللہ روح اللہ خمینی نے انھیں تہران میں جمعے کی نماز کا امام مقرر کر دیا۔

    1981 میں خامنہ ای صدر منتخب ہوئے جبکہ 1989 روح اللہ خمینی کی وفات کے بعد مذہبی رہنماؤں نے انھیں آیت اللہ خمینی کا جانشین مقرر کر دیا

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • إجابتين
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

ایران اسرائیل تنازعے میں امریکی صدر ٹرمپ کیا اقدامات اٹھا سکتے ہیں؟

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم أغسطس 4, 2025 في 1:32 am

    امریکی صدر ٹرمپ ایران اسرائیل تنازعے میں ایک بار پھر اپنے موقف میں تبدیلی لاتے دکھائی دے رہے ہیں، پہلے انھوں نے اسرائیل کے ایران پر حملوں کی مکمل حمایت کی اور اب وہ تیزی سے ان تبصروں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اس اہم تنازعے پر بڑھتی کشیدگی میں ان کے ابہام نے غیر یقینی کی فضا کو مزید بڑھایا ہے۔ اس سب کے دو‫اقرأ المزيد

    امریکی صدر ٹرمپ ایران اسرائیل تنازعے میں ایک بار پھر اپنے موقف میں تبدیلی لاتے دکھائی دے رہے ہیں، پہلے انھوں نے اسرائیل کے ایران پر حملوں کی مکمل حمایت کی اور اب وہ تیزی سے ان تبصروں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

    اس اہم تنازعے پر بڑھتی کشیدگی میں ان کے ابہام نے غیر یقینی کی فضا کو مزید بڑھایا ہے۔ اس سب کے دوران وہ کینیڈا میں منقعدہ جی سیون ممالک کے اجلاس سے بھی اٹھ کر چلے گئے اور انھوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن واپس جانے کے لیے ان کے پاس ‘اہم وجہ’ ہے۔

    وائٹ ہاؤس نے ان کے جی سیون ممالک کے اجلاس سے چلے جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ‘مشرق وسطی کی صورتحال’ اس کی وجہ ہے جبکہ بعدازاں انھوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ‘اس کا سیز فائر سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔’

    اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ایران پر حملے امریکہ کی ’مکمل مشاورت‘ سے کیے گئے ہیں

    نتین یاہو کے دباؤ کے آگے جھک جائیں اور کشیدگی کو مزید بڑھائیں

    جمعرات کو تہران پر اسرائیلی میزائل حملوں کے بعد ٹرمپ نے ایران کے رہنماوں کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان کے اسرائیلی اتحادی کی جانب سے امریکی ببموں سے لیس ‘مزید خطرناک حملوں’ کے لیے تیار رہیں۔

    ہمیں ٹرمپ کے بنیادی مقصد کے متعلق علم ہے۔ نیتن یاہو کی طرح انھوں نے کہا ہے کہ ایران ایٹمی بم کی صلاحیت نہیں رکھ سکتا۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے نتین یاہو کے برعکس ایران کی جوہری صلاحیت ختم کرنے کے لیے امریکہ اور ایران کے درمیان ایک معاہدے کرنا کا کہا ہے۔ ( یہ اقدام ان کے خود ساختہ بیان کردہ عالمی سطح کے ثالث کا عکاس ہے۔)

    لیکن انھوں نے اس بارے میں بہت شور مچایا ہے کہ وہ اس معاہدے تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ کبھی انھوں نے ایران پر طاقت کا استعمال کرنے کی بات کی تو کبھی سفارتکاری پر زور دیا۔ گذشتہ ہفتے انھوں نے یہاں تک کہا کہ ایران پر اسرائیلی حملے یا تو معاہدے میں مددگار ہوں گے یا پھر اسے ‘ختم کر دیں گے۔’

    ڈونلڈ ٹرمپ کا ناقابلِ پیشن گوئی رویہ اکثر ان کے حامیوں میں بھی نظر آتا ہے جو کہ ایک سٹریٹیجک حقیقت ہے اور خارجہ امور کی نام نہاد ‘میڈ مین’ تھیوری سے مطابقت رکھتا ہے۔

    یہ نظریہ وہ ہے جو پہلے ٹرمپ کے مذاکراتی حربوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے اور یہ تجویز کرتا ہے کہ جان بوجھ کر غیر یقینی یا غیر متوقع طور پر تنازعات میں کشیدگی مخالفوں (یا حتیٰ کہ ٹرمپ کے معاملے میں اتحادیوں) کو تعمیل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ طریقہ صدر رچرڈ نکسن کے سرد جنگ کے کچھ طریقوں سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • إجابتين
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

صدام حسین کا کویت پر حملہ اور چار دن کی ’انقلابی جمہوریہ‘ کی کہانی

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم أغسطس 4, 2025 في 1:29 am

    اگست 1990 کو عراقی افواج نے اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین کے حکم پر کویت پر حملہ کر دیا، جس سے مشرق وسطی میں اس بحران کا آغاز ہوا، جس کے بعد دوسری خلیجی جنگ کی راہ ہموار ہوئی۔ عراق کا حملہ اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ عراق اور کویت کے درمیان اس بحران کے پیچھے چند سیاسی اور اقتصادی عوامل چھپے تھے۔ 1988 می‫اقرأ المزيد

    اگست 1990 کو عراقی افواج نے اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین کے حکم پر کویت پر حملہ کر دیا، جس سے مشرق وسطی میں اس بحران کا آغاز ہوا، جس کے بعد دوسری خلیجی جنگ کی راہ ہموار ہوئی۔

    عراق کا حملہ اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ عراق اور کویت کے درمیان اس بحران کے پیچھے چند سیاسی اور اقتصادی عوامل چھپے تھے۔

    1988 میں ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد عراق قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا، خاص طور پر ان خلیجی ریاستوں کے قرضوں میں جنھوں نے جنگ کے دوران اس کی مالی مدد کی تھی۔ ان ممالک میں کویت اور سعودی عرب سرفہرست تھے۔

    پھر کویت نے عراق سے اپنے قرضوں کی ادائیگی کا مطالبہ کر دیا۔ تاہم بحران ان عراقی الزامات کی وجہ سے مزید بڑھ گیا کہ کویت نے اپنے اوپیک (آرگنائزیشن آف دی پیٹرولیم ایکسپورٹ ممالک) کے تیل کے کوٹے سے تجاوز کیا جس سے بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے عراق کی آمدنی بھی کمی ہوئی

    عراق نے کویت پر مشترکہ رومیلا تیل فیلڈ سے تیل چوری کرنے کا الزام بھی لگایا۔ اس کشیدہ ماحول کے درمیان صدام حسین نے کویت پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

    دو اگست سنہ 1990 کی صبح تقریباً ایک لاکھ عراقی فوجی ٹینکوں، ہیلی کاپٹروں اور ٹرکوں کے ساتھ کویت کی سرحد میں داخل ہوئے۔

    اس وقت عراق کی فوج دنیا کی چوتھی سب سے بڑی فوج تھی۔

    محض ایک گھنٹے میں ہی وہ کویت سٹی پہنچ گئے اور دوپہر تک عراقی ٹینکوں نے کویت کے شاہی محل دسمان محل کو محاصرے میں لے لیا۔

    اس وقت تک کویت کے امیر سعودی عرب فرار ہو چکے تھے۔ انھوں نے اپنے سوتیلے بھائی شیخ فہد الاحمد الصباح کو اپنی جگہ چھوڑا تھا۔ عراقی فوج نے شیخ کو دیکھتے ہی گولی مار دی۔

    ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد علی حسن الماجد (صدام کے کزن) کو کویت کا فوجی گورنر مقرر کیا گیا۔

    عراقی حکام نے کویت میں اپنی موجودگی کو جواز دینے کے لیے تیزی سے اقدامات کرنا شروع کر دیے۔ ایسا ہی ایک قدم ایک نئے سیاسی وجود کا قیام تھا جسے جمہوریہ کویت کا نام دیا گیا۔

    ملک پر قبضہ کرنے کے دو دن بعد، 4 اگست 1990 کو، صدام حسین نے جمہوریہ کویت کے قیام کا اعلان کیا۔ راجہ حسن مناوی کی کتاب ’کویت: حملہ اور آزادی‘ کے مطابق صدام حسین نے اعلان کیا کہ یہ نئی جمہوریہ ’آزاد اور مقبول انقلاب کے زیر انتظام ہے۔‘

    تجزیہ کاروں اور تاریخ دانوں کے مطابق یہ اعلان صدام حسین کی وقت خریدنے کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔

    پہلے دن سے فوری الحاق کا اعلان کرنے کے بجائے، عراقی حکومت نے صورت حال کو کویت میں ایک اندرونی انقلاب کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی یعنی ان کے مطابق خود کویتیوں نے اپنی ہی حکومت کے خلاف انقلاب برپا کیا۔

    اس وقت عراقی میڈیا نے حملے کا جواز فراہم کرنے کے لیے اسی بیانیے کا استعمال کیا۔ جمہوریہ کویت کی حکومت میں نو ایسے سابق کویتی افسران شامل تھے جنھوں نے عراقی حکومت کے ساتھ تعاون کیا تھا، یا بعد میں انھیں عراق سے تعاون کرنے والا قرار دیا گیا۔

    کرنل علاء حسین علی الخفاجی الجابر کو وزیر اعظم اور مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف مقرر کیا گیا، وہ وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل ولید سعود محمد عبداللہ کو خارجہ امور کا وزیر، لیفٹیننٹ کرنل فواد حسین احمد کو وزیر خزانہ، میجر فاضل حیدر الوفیقی کو اطلاعات اور ٹرانسپورٹ کا وزیر اور لیفٹیننٹ کرنل حسین دہیمان الشمری کو سماجی امور کا وزیر مقرر کیا گیا۔

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • إجابتين
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

نیتن یاہو کے ساتھ حکومت بنانے والا اتحادی گروپ ’مذہبی صیہونیت‘ کیا ہے؟

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم أغسطس 4, 2025 في 1:24 am

    ان کے پیروکاروں کا نعرہ ہوتا تھا ’عرب مردہ باد‘۔ اب جبکہ اوتمسا یہودیت جماعت اسرائیل کی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے۔ اس کے سب سے مقبول رہنما اتامر بن گویر خود کو ایک مرکزی دھارے کے سیاستدان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کے حامی ریلیوں میں ’دہشت گردوں کے لیے موت‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ ان کی پا‫اقرأ المزيد

    ان کے پیروکاروں کا نعرہ ہوتا تھا ’عرب مردہ باد‘۔

    اب جبکہ اوتمسا یہودیت جماعت اسرائیل کی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے۔ اس کے سب سے مقبول رہنما اتامر بن گویر خود کو ایک مرکزی دھارے کے سیاستدان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کے حامی ریلیوں میں ’دہشت گردوں کے لیے موت‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔

    ان کی پارٹی ’مذہبی صیہونیت‘ نامی نظریاتی اتحاد کا حصہ ہے۔ اس اتحاد میں شامل انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو ان انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی ہے اور نیتن یاہو نے ان انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ حکومتی اتحاد بنانے کا اعلان کیا ہے۔ انتہائی دائیں بازو، یہودی بالادستی اور عرب مخالف نظریاتی اتحاد ’مذہبی صیہونیت‘ کی اسرائیلی انتخابات میں بے مثال کامیابی نے وہ حاصل کر لیا ہے جو ایک سال پہلے ناممکن نظر آتا تھا اور وہ ہے نیتن یاہو کی بطور وزیر اعظم واپسی۔ وہ چھٹی بار اسرائیل کے وزیر اعظم ہوں گے۔

    بُدھ کو 73 برس کے سیاست دان نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ انھیں نئی ​​حکومت بنانے کے لیے کنیسٹ (پارلیمنٹ) میں کافی حمایت حاصل ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ ’گذشتہ انتخابات میں ہمیں ملنے والی زبردست عوامی حمایت کی بدولت میں ایک ایسی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا جو تمام اسرائیلی شہریوں کے فائدے کے لیے کام کرے گی۔‘

    سات دہائیوں میں پہلی بار ملک پر انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد حکومت کرے گا۔

    مذہبی صیہونیت اور دیگر الٹرا آرتھوڈوکس گروہوں کی بدولت، نیتن یاہو نے پارلمینٹ میں حکومتی اتحاد بنایا ہے۔

    تاہم اس حکومت کا استحکام ایک کھلے عام نسل پرست اور انتہائی قوم پرست اتحاد پر منحصر ہو گا، جس کے سب سے مقبول رہنما ایک ایسی شخصیت ہیں، جنھوں نے برسوں تک اپنے کمرے میں ایک ایسے یہودی بنیاد پرست کی تصویر لٹکائے رکھی جس نے الخلیل میں قتل عام کروایا تھا۔

    ’مذہبی صیہونیت‘ نامی نظریاتی تحریک میں شامل جماعتیں (اوتمسا یہودیت، نوم اور مذہبی زیونیسٹ پارٹی) اسرائیل کی سیاست میں اب تک زیادہ کامیاب نہیں تھیں۔

    روایتی دائیں بازو کے حلقوں نے بھی ان کی بنیاد پرستی اور عرب مخالف بیان بازی کی وجہ سے ان سے منہ موڑ لیا تھا۔

    نیتن یاہو کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے ان کی جماعت لیکود کے ساتھ اتحاد نے سماجی طور پر ان کی پوزیشن کو بحال کر دیا ہے، یہاں تک کہ وہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اپنی موجودگی کو 6 سے 14 نشستوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

    اگرچہ سرکاری طور پر اس اتحاد میں دوسرے نمبر کی جماعت کے اہم رکن ایتامر بین گویر ہیں، جو اس اتحاد کے لیے ووٹ حاصل کرنے میں انتہائی اہم رہے ہیں۔

    اوتمسا یہودیت نامی جماعت کے یہ رہنما، جن کی ماضی میں نسل پرستی اور نفرت کے لیے اکسانے پر مذمت کی گئی، مغربی کنارے میں ایک یہودی بستی میں رہائش پذیر ہیں اور اپنی اشتعال انگیزی کے لیے جانے جاتے ہیں۔

    ان کے سخت گیر خیالات کی وجہ سے فوج نے انھیں لازمی فوجی سروس سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔

    گذشتہ اکتوبر میں وہ اس وقت خبروں میں آئے جب مشرقی یروشلم کے علاقے شیخ جراح میں ان پر پتھر برسائے گئے اور انھوں نے پستول نکال لی۔ بین گویر نے پولیس کو کہا کہ وہ اس واقعے کے ذمہ داران کو گولیاں مار دیں۔

    46 برس کے انتہائی سخت گیر سیاست دان جو نئی حکومت میں وزارت داخلہ سنبھالیں گے، انتہائی قوم پرست رابی میئر کہانے کے پیروکار رہے ہیں۔

    بین گویر، میئر کہانے کی جماعت کاچ کے رکن رہے ہیں، جس پر انسداد دہشتگردی قوانین کے تحت 1994 میں پابندی لگا دی گئی تھی۔

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • إجابتين
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

مسجد اقصیٰ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے اہم کیوں؟

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم أغسطس 4, 2025 في 1:21 am

    اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی حلف برداری کے ایک ہفتے کے اندر ہی ملک کے قومی سلامتی کے وزیر اور انتہائی دائیں بازو کے رہنما ایتامر بین گویر کا مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ کے احاطے کا دورہ بہت زیادہ تنازعے کا شکار ہو گیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے اسے ’بے مثال اشتعال انگیزی‘‫اقرأ المزيد

    اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی حلف برداری کے ایک ہفتے کے اندر ہی ملک کے قومی سلامتی کے وزیر اور انتہائی دائیں بازو کے رہنما ایتامر بین گویر کا مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ کے احاطے کا دورہ بہت زیادہ تنازعے کا شکار ہو گیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے اسے ’بے مثال اشتعال انگیزی‘ قرار دیا ہے۔

    یروشلم تینوں مذاہب اسلام، یہودیت اور مسیحیت کے پیروکاروں کے لیے مقدس مقام ہے۔ مسجد اقصیٰ کو مکہ کی مسجد الحرام اور مدینہ کی مسجد نبوی کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔

    یہودی مسجد کے احاطے میں داخل ہو سکتے ہیں لیکن انھیں وہاں عبادت کرنے کی اجازت نہیں۔

    ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ آیا ایتامر بین گویر نے وہاں عبادت کی یا نہیں لیکن فلسطینی اسے مسجد اقصیٰ کی موجودہ حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ آخر اسرائیلی وزیر کا مسجد اقصیٰ کے احاطے میں جانا اتنا متنازع کیوں بن گیا اور مسجد اقصیٰ اتنی اہم کیوں ہے کہ اسرائیلی وزیر کے وہاں جانے کے بعد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر کئی مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ چین نے بھی شدید اعتراض کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے

    درحقیقت مشرقی یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ یہودیوں کے لیے مقدس ترین مقام ہے اور اسے اسلام میں تیسرا مقدس ترین مقام بھی سمجھا جاتا ہے۔

    مقدس مقام، جسے یہودیوں کے لیے ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ اور مسلمانوں کے لیے ’الحرم الشریف‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں ’مسجد اقصیٰ‘ اور ’ڈوم آف دی راک‘ شامل ہیں۔

    ’ڈوم آف دی راک‘ کو یہودیت میں مقدس ترین مقام کا درجہ دیا گیا ہے اور مسلمان بھی پیغمبر اسلام محمد کی نسبت سے اسے مقدس مقام مانتے ہیں۔

    اس مذہبی مقام پر غیر مسلموں کے عبادت کرنے پر پابندی ہے۔

    مسجد اقصیٰ گول گنبد والی مسجد کا نام ہے جو 35 ایکڑ کے احاطے میں موجود ہے۔ مسلمان اسے الحرم الشریف بھی کہتے ہیں۔ یہودی اسے ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں۔

    یہ کمپلیکس یروشلم کے پرانے علاقے میں ہے جسے یونیسکو سے عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ مل چکا ہے

    یہ علاقہ سنہ 1967 میں غربِ اردن، غزہ کی پٹی اور اولڈ سٹی سمیت مشرقی یروشلم کے اسرائیل کے الحاق کے بعد سے متنازع ہے تاہم اس حوالے سے تنازع اسرائیل کے وجود سے پہلے سے جاری ہے۔ 1947 میں اقوام متحدہ نے ایک علیحدہ فلسطینی علاقے کے لیے تقسیم کا منصوبہ بنایا۔ اس وقت فلسطین برطانیہ کے قبضے میں تھا۔

    اس منصوبے کے مطابق دو ممالک بنائے جانے تھے، ایک یورپ سے آنے والے یہودیوں کے لیے اور دوسرا فلسطینیوں کے لیے۔ یہودیوں کو 55 فیصد زمین اور باقی 45 فیصد زمین فلسطینیوں کو دی گئی۔ 1948 میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سمیت 72 فیصد زمین پر قبضہ کر لیا اور خود کو ایک آزاد ملک قرار دیا۔

    دراصل 1967 میں دوسری عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے مشرقی یروشلم شہر پر قبضہ کر لیا اور اس طرح شہر کے پرانے علاقے میں واقع الاقصیٰ کمپلیکس بھی اس کے قبضے میں آ گیا۔

    اسرائیل نے اسے اردن سے چھین لیا تھا لیکن مقدس مقامات کے کنٹرول کے تنازع کے بعد جمود کو برقرار رکھنے کے لیے ایک نظام بنایا گیا۔

    اس انتظام کے تحت اردن کو اس جگہ کا نگہبان بنایا گیا تھا جبکہ اسرائیل کو سکیورٹی کے نظام کو سنبھالنے کی ذمہ داری ملی تھی لیکن یہاں صرف مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت تھی۔

    یہودی یہاں آ سکتے تھے لیکن انھیں عبادت کرنے سے منع کیا گیا تھا۔

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • إجابتين
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

مسجدِ اقصٰی کے احاطے میں اسرائیلی وزیر کی عبادت: مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے اہم مسجد اتنی متنازع کیوں ہے؟

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم أغسطس 4, 2025 في 1:18 am

    اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اور انتہائی دائیں بازو کے رہنما ایتامر بین گویر نے اتوار کو مشرق وسطیٰ کے سب سے حساس مقامات میں شامل مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ کا نہ صرف دورہ کیا بلکہ اس دوران وہ دہائیوں پرانے معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔ ان کے دورے کی تصاویر اور ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ‫اقرأ المزيد

    اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اور انتہائی دائیں بازو کے رہنما ایتامر بین گویر نے اتوار کو مشرق وسطیٰ کے سب سے حساس مقامات میں شامل مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ کا نہ صرف دورہ کیا بلکہ اس دوران وہ دہائیوں پرانے معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔

    ان کے دورے کی تصاویر اور ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ بین گویر یہودی عبادات کرتے ہوئے مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں موجود ہیں۔ اس احاطے کو یہودی ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کے نام سے جانتے ہیں اور یہ علاقہ مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں واقع ہے۔

    یاد رہے کہ اس مقام پرعبادت کرنا ایک طویل عرصے سے قائم اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جو یہودیوں کو صرف اس مقام کی زیارت کی اجازت دیتا ہے، عبادت کی نہیں۔ اردن نے، جو اس مقام کا نگران ہے، بن گویر کے حالیہ دورے کو ’ناقابلِ قبول اشتعال انگیزی‘ قرار دیا ہے۔

    دوسری جانب اسرائیلی وزیرِاعظم کے دفتر سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیل کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ اس معاہدے پر قائم ہے جس کے تحت صرف مسلمانوں کو اس مقام پر عبادت کی اجازت ہے۔ ایتامر بین گویر کے ٹیمپل ماؤنٹ میں عبادت کے ویڈیو کلپس کو حماس نے ’فلسطینی قوم کے خلاف جاری جارحیت کی سنگینی میں اضافہ‘ قرار دیا، جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ترجمان نے کہا کہ ’یہ دورہ تمام سرخ لکیریں (حدیں) پار کر گیا ہے۔‘

    یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب ایتامر نے اس مقام کا دورہ کیا ہو۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو کی حلف برداری کے ایک ہفتے کے اندر ہی ایتامر بین گویر نے مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسجد اقصیٰ کے احاطے کا دورہ کیا تھا۔

    تاہم ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ جب انھوں نے کھلے عام وہاں عبادت کی ہے

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • إجابتين
إجابة

القائمة الجانبية

أكتشاف

  • Nuq4 المحل
  • تصبح عضوا

الفوتر

احصل على إجابات على جميع الأسئلة الخاصة بك ، كبيرة أو صغيرة ، Nuq4.com. لدينا قاعدة بيانات في تزايد مستمر ، بحيث يمكنك دائما العثور على المعلومات التي تحتاج إليها.

Download Android App

© حقوق الطبع والنشر عام 2024 ، Nuq4.com

القانونية

الشروط والأحكام
سياسة الخصوصية
سياسة الكوكيز
سياسة DMCA
قواعد الدفع
سياسة رد
Nuq4 الهبة الشروط والأحكام

الاتصال

الاتصال بنا
Chat on Telegram
arالعربية
en_USEnglish arالعربية
نحن نستخدم ملفات تعريف الارتباط لضمان أن نقدم لكم أفضل تجربة على موقعنا على الانترنت. إذا كان يمكنك الاستمرار في استخدام هذا الموقع سوف نفترض أن كنت سعيدا مع ذلك.طيبسياسة الكوكيز