...

تسجيل دخول تسجيل دخول

تواصل مع جوجل
أو استخدم

هل نسيت كلمة المرور؟

لا تملك عضوية، ‫تسجيل جديد من هنا

نسيت كلمة المرور نسيت كلمة المرور

هل نسيت كلمة المرور؟ الرجاء إدخال بريدك الإلكتروني، وسوف تصلك رسالة عليه حتى تستطيع عمل كلمة مرور جديدة.

هل لديك عضوية؟ تسجيل دخول الآن

‫‫‫عفوًا، ليس لديك صلاحيات لإضافة سؤال, يجب تسجيل الدخول لتستطيع إضافة سؤال.

تواصل مع جوجل
أو استخدم

هل نسيت كلمة المرور؟

تحتاج إلى عضوية، ‫تسجيل جديد من هنا

برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن السؤال.

برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن الإجابة.

برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن المستخدم.

تسجيل دخولتسجيل

Nuq4

Nuq4 اللوجو Nuq4 اللوجو
بحث
أسأل سؤال

قائمة الموبيل

غلق
أسأل سؤال
  • Nuq4 المحل
  • تصبح عضوا

Nuq4 الاحدث الأسئلة

  • 0
Ali1234الباحث

کیا شاہ محمود قریشی مستقبل قریب میں کوئی سیاسی کردار ادا کر سکتے ہیں؟

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم يوليو 24, 2025 في 12:09 am

    پاکستان میں سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین حالیہ عدالتی فیصلوں کے بعد یہ قیاس آرائیاں کرتے یا سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر شاہ محمود قریشی باقی مقدمات میں بھی بری ہونے کے بعد رہا ہو جاتے ہیں تو کیا وہ پی ٹی آئی کے اندر یا باہر سیاسی طور پر کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں بھی تجزیہ ن‫اقرأ المزيد

    Getty Images

    پاکستان میں سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین حالیہ عدالتی فیصلوں کے بعد یہ قیاس آرائیاں کرتے یا سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر شاہ محمود قریشی باقی مقدمات میں بھی بری ہونے کے بعد رہا ہو جاتے ہیں تو کیا وہ پی ٹی آئی کے اندر یا باہر سیاسی طور پر کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟

    اس سوال کے جواب میں بھی تجزیہ نگار ماجد نظامی کا خیال ہے کہ شاہ محمود قریشی کے لیے کوئی ایسا کردار ادا کرنا مشکل ہو گا جس میں پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر نقصان ہوتا نظر آ رہا ہو۔

    وہ کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کے اندر کوئی نئی حکمرانی لانا یا کوئی نیا گروپ وغیرہ بنانا بہت مشکل ہو گا۔ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں یا پنجاب کے اندر جب بھی اس قسم کی کوشش کی گئی ہے اس کا نتیجہ ان کی سیاسی تباہی کی صورت میں نکلا ہے۔‘

    ماجد نظامی کے خیال میں شاہ محمود قریشی عمران خان کی مرضی اور منشا کے بغیر پارٹی کے اندر بھی کوئی ایسا کردار ادا نہیں کر پائیں گے جس سے وہ پی ٹی آئی کو تقسیم کر پائیں یا اپنے اختیار میں کر پائیں۔

    صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی بھی کہتے ہیں کہ ’ایسی کسی کوشش کو پی ٹی آئی کا ورکر یا ووٹر اور سپورٹر تسلیم نہیں کرے گا۔‘ ان کے خیال میں جب تک شاہ محمود قریشی پر عمران کن کا ہاتھ نہیں ہو گا ان کے لیے پی ٹی آئی کے اندر کوئی کردار ادا کرنا مشکل نظر آتا ہے۔

    ’تاریخ میں کبھی بھی مائنس ون کا فارمولا کامیاب نہیں ہوا۔ یہاں پی ٹی آئی میں بھی عمران خان کی ہی تمام ویلیو ہے۔‘

    ماضی کے کچھ واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلمان غنی کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو وہ زیادہ تر ’مزاحمت کے سیاست دان نہیں رہے۔‘ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’حال ہی میں ان کے بیٹے اور پی ٹی آئی لیڈر زین قریشی بارگین کر چکے ہیں اور وہ اس وقت ملک میں موجود بھی نہیں ہیں۔‘

    ان کے خیال میں اس بات کے امکانات کم ہیں کہ شاہ محمود قریشی جیل سے باہر آ جائیں کیونکہ اگر وہ باہر آ جائیں تو بھی اس بات کے امکانات مزید کم ہیں کہ وہ سیاسی کردار ادا کر پائیں گے

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • ‫1 إجابة
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث
في: Cricket Pakistan, Pakistan

Punishments to PTI leaders: Is anything going to change inside or outside Imran Khan's party?

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم يوليو 24, 2025 في 12:08 am

    The recent wave of convictions and arrests of Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) leaders, particularly those linked to the May 9, 2023, riots, is having a significant and multifaceted impact on Imran Khan's party, both internally and externally. Internal Changes within PTI: Leadership Vacuum and Communi‫اقرأ المزيد

    عمران خان، قریشی

    The recent wave of convictions and arrests of Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) leaders, particularly those linked to the May 9, 2023, riots, is having a significant and multifaceted impact on Imran Khan’s party, both internally and externally.

    Internal Changes within PTI:

    • Leadership Vacuum and Communication Challenges: With many senior leaders jailed, disqualified, or in hiding, there’s a clear leadership vacuum. While Imran Khan remains the charismatic figurehead, his incarceration limits his ability to directly lead and strategize. This has led to communication challenges and, at times, public disagreements among remaining leaders regarding party strategy, as seen with conflicting statements about protest plans.
    • Imran Khan’s Directives from Jail: Despite being imprisoned, Imran Khan continues to issue directives to his party members, urging unity and focus on their protest movement. He has explicitly prohibited public discussion of internal matters to curb infighting.
    • Shift in Party Structure: The crackdown has forced a significant restructuring, with new individuals stepping into roles previously held by jailed leaders. Gohar Ali Khan, for instance, was elected as the Chairman of PTI in late 2023, nominated by Imran Khan himself.
    • Resilience amidst Adversity: Despite the immense pressure, the PTI leadership maintains a defiant stance, denouncing the verdicts as politically motivated and part of a broader campaign to dismantle the party. They are mobilizing for new protest movements, indicating a continued resolve to challenge the government.
    • Concerns over “Minus Imran” Formula: There have been speculations, even from within the party (e.g., Imran Khan’s sister Aleema Khan), about a “minus Imran” formula at play, where the establishment might be attempting to isolate him and reshape the party without his direct leadership. However, party leaders largely deny internal rifts and emphasize unity around Khan’s release.

    External Perception and Impact on PTI’s Stance:

    • Perception of Political Motivation: The timing and severity of the sentences, particularly the 10-year imprisonments for leaders like Dr. Yasmin Rashid (who is battling cancer), are widely seen by PTI and human rights groups as politically motivated attempts to suppress dissent and dismantle the party. This risks undermining public confidence in the justice system.
    • Challenges to Democratic Freedoms: International observers and human rights groups have raised concerns about the state of democratic freedoms and judicial independence in Pakistan, viewing the mass convictions as a significant blow to a major political party.
    • Impact on Political Landscape: Analysts suggest that the aggressive targeting of PTI is designed to reshape the political landscape, potentially in favor of a more compliant opposition. The goal appears to be to neutralize PTI’s political footprint ahead of future elections.
    • Continued Street Power (or lack thereof): While PTI continues to call for protests, questions remain about its ability to consistently mobilize large-scale street power after repeated crackdowns and arrests. However, the party insists it has not bowed to pressure and will continue its movements.
    • Legal Challenges and Appeals: PTI leaders are actively challenging the verdicts in superior courts, which could prolong the legal battles and keep the issue in the public discourse.
    • Risk to International Standing: PTI leaders have also claimed that the harsh punishments could jeopardize Pakistan’s GSP+ status and FATF compliance, suggesting a potential international dimension to the crackdown.

    In essence, the punishments are a severe blow to PTI’s organizational structure and immediate political maneuvering. While the party maintains a defiant public stance and aims to mobilize its base, the ongoing legal battles, incarceration of key figures, and alleged efforts by the establishment to weaken it will undoubtedly continue to shape its internal dynamics and external perception in the coming months. The party’s ability to maintain unity and rally support despite these challenges will be crucial for its future.

     

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • ‫1 إجابة
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

ایئرانڈیا کے تباہ ہونے والے طیارے کی 21 سالہ ایئرہوسٹس: ’وہ خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا‘

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم يوليو 24, 2025 في 12:05 am

    ’وہ بطور ایئر ہوسٹس اپنی ملازمت سے بہت خوش تھی۔ یہ اُس کا خواب تھا۔ ابھی وہ کالج ہی میں زیر تعلیم تھی جب اس نے ایئر ہوسٹس بننے کا امتحان پاس کیا اور ایئرلائن میں نوکری حاصل کر لی۔ اُس وقت اُس کی عمر صرف 19 سال تھی۔ وہ ابھی کچھ دن پہلے ہی گھر آئی تھی لیکن اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گی۔‘ سنتومبھا شرما ج‫اقرأ المزيد

    ایئرانڈیا کے تباہ ہونے والے طیارے کی 21 سالہ ایئرہوسٹس: 'وہ خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا'

    ’وہ بطور ایئر ہوسٹس اپنی ملازمت سے بہت خوش تھی۔ یہ اُس کا خواب تھا۔ ابھی وہ کالج ہی میں زیر تعلیم تھی جب اس نے ایئر ہوسٹس بننے کا امتحان پاس کیا اور ایئرلائن میں نوکری حاصل کر لی۔ اُس وقت اُس کی عمر صرف 19 سال تھی۔ وہ ابھی کچھ دن پہلے ہی گھر آئی تھی لیکن اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گی۔‘

    سنتومبھا شرما جب ہمیں اپنی 21 سالہ بھانجی نگانتھوی شرما کی کہانی سُنا رہی تھیں تو اُن کے چہرے پر اداسی تھی اور آنکھیں نم تھیں۔

    21 سالہ ایئرہوسٹس نگانتھوی شرما ایئرانڈیا کی اس پرواز پر اپنی خدمات سرانجام دے رہی تھیں جو 12 جون کو ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس بدقسمت طیارے پر سوار صرف ایک شخص ہی زندہ بچ پایا تھا جبکہ دیگر 241 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

    بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں اپنی بھانجی کو یاد کرتے ہوئے سنتومبھا شرما نے کہا کہ ’میری بھانجی اپنے تین بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھیں۔ اس کی ایک بڑی بہن اور ایک چھوٹا بھائی ہے جو دسویں کلاس میں پڑھتا ہے۔ 

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • ‫1 إجابة
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

ایئر انڈیا کے طیارے میں ہلاک ہونے والا خاندان جو برسوں بعد ایک ساتھ رہنے کا خواب لیے لندن جا رہا تھا

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم يوليو 24, 2025 في 12:02 am

    ،تصویر کا کیپشنطیارے میں سوار ہونے کے بعد ڈاکٹر پراتیک کی لی گئی یہ سیلفی حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی انڈیا کی ریاست گجرات کے احمد آباد میں طیارہ حادثہ کئی جانیں لے گیا۔ اس حادثے سے متعلق کئی پوسٹس سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں سے ایک تصویر ہنستے مسکراتے مستقبل کے حوالے سے نئے خواب آنک‫اقرأ المزيد

    طیارے میں سوار ہونے کے بعد ڈاکٹر پراتیک کی لی گئی یہ سیلفی حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی

    ،تصویر کا کیپشنطیارے میں سوار ہونے کے بعد ڈاکٹر پراتیک کی لی گئی یہ سیلفی حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی

    انڈیا کی ریاست گجرات کے احمد آباد میں طیارہ حادثہ کئی جانیں لے گیا۔ اس حادثے سے متعلق کئی پوسٹس سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں سے ایک تصویر ہنستے مسکراتے مستقبل کے حوالے سے نئے خواب آنکھوں میں سجائے ایک خاندان کی بھی ہے۔

    یہ اس خاندان کی آخری سیلفی تھی جو انھوں نے جہاز میں سوار ہونے کے بعد بنائی اور شاید اپنے خاندان کو روانگی سے قبل بھیجی تھی۔

    تصویر میں تین بچوں اور ان کے والدین کو مسکراتے دیکھا جا سکتا ہے۔

    یہ ایک ایسا خاندان تھا جو کئی سالوں کے بعد ایک ساتھ رہنے کے اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے برطانیہ منتقل ہو رہا تھا۔ پرواز سے پہلے لی گئی یہ سیلفی اب ان کے اہل خانہ کے لیے ان کی آخری یاد بن گئی ہے۔  اس المناک حادثے میں ڈاکٹر پراتیک جوشی، ان کی اہلیہ ڈاکٹر کومی ویاس، ان کی آٹھ سالہ بیٹی میرا اور پانچ سالہ جڑواں بیٹے پردیوت اور نکول کی موت ہو گئی۔

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • ‫1 إجابة
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث
في: الهند

How will the Air India plane crash investigation be conducted?

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم يوليو 23, 2025 في 11:57 pm

    The investigation into the Air India plane crash will be conducted primarily by the Aircraft Accident Investigation Bureau (AAIB) of India, which is the designated authority for such investigations in the country. The AAIB operates under the Aircraft (Investigation of Accidents and Incidents) Rules,‫اقرأ المزيد

    The investigation into the Air India plane crash will be conducted primarily by the Aircraft Accident Investigation Bureau (AAIB) of India, which is the designated authority for such investigations in the country. The AAIB operates under the Aircraft (Investigation of Accidents and Incidents) Rules, 2017, and is an independent body under the Ministry of Civil Aviation.

    Here’s a breakdown of how the investigation is typically conducted:

    1. Objective: The sole objective of the investigation is prevention of future accidents and incidents, not to apportion blame or liability. Any investigation by the AAIB is separate from judicial or administrative proceedings.
    2. Multidisciplinary Team: The AAIB forms a multidisciplinary team for the investigation. This team often includes:
      • An Investigator-in-Charge.
      • Aviation medicine specialists.
      • Air Traffic Control (ATC) officers.
      • Representatives from the State of Design (e.g., the US National Transportation Safety Board – NTSB, since the aircraft was a Boeing Dreamliner) and the State of Manufacture (USA), as well as the State of Registry and State of the Operator.
    3. Site Investigation and Evidence Collection:
      • Investigators immediately go to the crash site to collect and preserve perishable evidence, wreckage samples, and the crucial black boxes (Flight Data Recorder – FDR and Cockpit Voice Recorder – CVR).
      • In the case of the recent Air India crash, India successfully decoded the black boxes domestically for the first time.
      • They collect data from various sources, including the airline operator, regulatory bodies, and involved personnel.
      • Investigators also look at CCTV footage from the surrounding area and interview witnesses.
    4. Black Box Analysis:
      • The FDR records hundreds of parameters about the aircraft’s performance (altitude, airspeed, engine parameters, control surface positions, etc.).
      • The CVR records cockpit conversations and other sounds within the cockpit.
      • The data from these black boxes is meticulously analyzed to reconstruct the sequence of events leading to the accident.
    5. Expert Analysis: The AAIB may engage domain experts and collaborate with other agencies, such as Hindustan Aeronautics Limited and DGCA laboratories, for specialized analysis. This can include:
      • Analysis of aircraft remnants.
      • Post-mortem reports.
      • Component inspections.
      • Review of maintenance records.
      • Assessment of pilot training and health, including psychological aspects.
    6. Preliminary Report: For major accidents, countries are encouraged by ICAO (International Civil Aviation Organization) to publish a preliminary report within 30 days. This report provides initial findings but does not typically reach definitive conclusions about the cause. The AAIB for this Air India crash released its preliminary report on July 12, indicating that the fuel cutoff switches had been activated shortly after takeoff.
    7. Final Report: The investigation is a complex process and takes time. The final report aims to establish the root cause(s) of the accident and suggest corrective measures to prevent similar occurrences. ICAO guidance suggests a goal of releasing the final report within 12 months.
    8. Safety Recommendations: Based on their findings, the AAIB issues safety recommendations to relevant bodies, such as the Directorate General of Civil Aviation (DGCA) in India or international aviation regulatory bodies, for implementation and monitoring.

    It’s important to note that throughout the process, the AAIB aims for transparency and impartiality, although there can be external pressures and differing interpretations of preliminary findings, as seen with some media reports and statements from pilot associations regarding the recent Air India crash. 

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • ‫1 إجابة
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث
في: الهند

Air India plane crash: ‘Boeing’s fuel control switches are safe to use,’ FAA says

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم يوليو 23, 2025 في 11:51 pm

    Following the Air India Flight 171 crash on June 12, 2025, the U.S. Federal Aviation Administration (FAA) and Boeing have privately affirmed the safety of fuel cutoff switch locks on Boeing aircraft. This comes amidst an ongoing investigation into the crash, which a preliminary report indicated was‫اقرأ المزيد

    Following the Air India Flight 171 crash on June 12, 2025, the U.S. Federal Aviation Administration (FAA) and Boeing have privately affirmed the safety of fuel cutoff switch locks on Boeing aircraft. This comes amidst an ongoing investigation into the crash, which a preliminary report indicated was caused by both engine fuel switches flipping to “cutoff” shortly after takeoff.

    While India’s Aircraft Accident Investigation Bureau (AAIB) preliminary report referenced a 2018 FAA advisory about potential disengagement of the fuel control switch locking mechanism, the FAA has stated that it does not consider this issue an “unsafe condition” requiring an airworthiness directive. Boeing has also reiterated the FAA’s stance in messages to airlines, and has not recommended any additional action in response to the incident.

    Despite the FAA’s position, India’s Directorate General of Civil Aviation (DGCA) ordered airlines operating Boeing 787 Dreamliners and select Boeing 737 variants to inspect fuel control switches. Air India has since completed these precautionary inspections on all its Boeing 787 and 737 aircraft, including those of Air India Express, and reported finding no issues with the locking mechanisms.

    The investigation into the Air India Flight 171 crash is ongoing, with the AAIB’s preliminary report outlining initial findings but not assigning blame. Cockpit voice recordings reportedly captured a moment of confusion between the pilots, with one asking the other why the fuel was cut off, and the other denying having done so. This has led to speculation about pilot error, though pilot associations and the NTSB have cautioned against premature conclusions, emphasizing that full investigations take time to determine root causes. 

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • ‫1 إجابة
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

ائیر انڈیا حادثے میں ہلاک ہونے والی خاتون کے تابوت میں کسی اور کی لاش: ’کیا معلوم اس میں اور کتنے لوگوں کی باقیات ہیں؟‘

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم يوليو 23, 2025 في 11:45 pm

    ،تصویر کا کیپشنایئر انڈیا حادثے میں ہلاک ہونے والی شوبھانا پٹیل کے بیٹے کا کہنا ہے کہ انڈیا سے جس تابوت میں ان کی والدہ کی میت بھیجی گئی ہے، اس میں کسی دوسرے شخص کی باقیات بھی ہیں۔ 12 جون کو اشوک اور شوبھانا پٹیل برطانیہ میں اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں سے ملنے کے لیے آحمد آباد سے ایئر انڈیا کی پرواز 1‫اقرأ المزيد

    Shobhana Patel and Ashok Patel smile for the camera in front of a patterned white curtain and a blue and white floral display. Shobhana has short black hair and wears a bright pink top, while Ashok has short black hair and wears a blue suit jacket, a white shirt and a pink and blue striped tie.

    ،تصویر کا کیپشنایئر انڈیا حادثے میں ہلاک ہونے والی شوبھانا پٹیل کے بیٹے کا کہنا ہے کہ انڈیا سے جس تابوت میں ان کی والدہ کی میت بھیجی گئی ہے، اس میں کسی دوسرے شخص کی باقیات بھی ہیں۔

    12 جون کو اشوک اور شوبھانا پٹیل برطانیہ میں اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں سے ملنے کے لیے آحمد آباد سے ایئر انڈیا کی پرواز 171 میں سوار ہوئے۔

    تاہم جہاز ٹیک آف کے بعد بمشکل 40 سیکنڈ تک فضا میں رہنے کے بعد ایئرپورٹ کے نزدیک واقع ایک گنجان آباد علاقے میں گِر کر تباہ ہو گیا۔ اسے انڈیا کی ہوابازی کی تاریخ کے سب سے پراسرار حادثات میں سے ایک میں شمار کیا جا رہا ہے

    اس حادثے میں اشوک اور شوبھانا پٹیل سمیت طیارے پر سوار 241 افراد اور زمین پر موجود 19 افراد ہلاک مارے گئے جبکہ ایک مسافر معجزانہ طور پر زندہ بچ گیا۔

    اس حادثے کے بعد جن افراد کی میتیں سب سے پہلے برطانیہ واپس لائی گئیں اس میں اشوک اور شوبھانا کی لاشیں بھی شامل ہیں  تاہم، اب ان کے بیٹے نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انڈیا سے جس تابوت میں ان کی والدہ کی میت بھیجی گئی ہے، اس میں کسی دوسرے شخص کی باقیات بھی ہیں

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • ‫1 إجابة
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

’ڈیوڈ کوریڈور‘: کیا اسرائیل ملک شام کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کے مبینہ منصوبے پر عمل کر رہا ہے؟

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم يوليو 23, 2025 في 11:40 pm

    ،تصویر کا کیپشنترکی کا کہنا ہے کہ اسرائیل شام میں جو بھی کر رہا ہے وہ اسے تقسیم کرنے کے لیے کر رہا ہے ترکی کے ذرائع ابلاغ نے اسرائیل کے ایک مبینہ منصوبے کے متعلق خدشات کو وسیع پیمانے پر اُجاگر کیا ہے جس کا مقصد شام کو ’تقسیم کرنا‘ یا ’چند حصوں میں بٹا ہوا ملک‘ بنانا ہے۔ ترکی کے بعض تجزیہ کاروں نے اس‫اقرأ المزيد

    ترکی کا کہنا ہے کہ اسرائیل شام میں جو بھی کر رہا ہے وہ اسے تقسیم کرنے کے لیے کر رہا ہے

    ،تصویر کا کیپشنترکی کا کہنا ہے کہ اسرائیل شام میں جو بھی کر رہا ہے وہ اسے تقسیم کرنے کے لیے کر رہا ہے

    ترکی کے ذرائع ابلاغ نے اسرائیل کے ایک مبینہ منصوبے کے متعلق خدشات کو وسیع پیمانے پر اُجاگر کیا ہے جس کا مقصد شام کو ’تقسیم کرنا‘ یا ’چند حصوں میں بٹا ہوا ملک‘ بنانا ہے۔

    ترکی کے بعض تجزیہ کاروں نے اسرائیل کے اس مبینہ ’ڈیوڈ کوریڈور‘ منصوبے پر تنقید کی ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کا مقصد اسرائیل کو جنوبی شام کے دروز آبادی والے علاقوں اور شمالی شام کے کرد آبادی والے علاقوں سے جوڑنا ہے۔

    یاد رہے کہ ترکی شام کی موجودہ حکومت کا ایک بڑا حامی ہے اور وہ دمشق میں طاقت کے ایک مرکزی محور کی حمایت کرتا ہے۔ ترکی شام میں ڈی سینٹرلائزڈ یا وفاقی طرزِ حکومت کا مخالف ہے۔

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • ‫1 إجابة
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

ہم کون ہیں؟ تہذیب، معاشرت اور ثقافت کا سوال

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم يوليو 23, 2025 في 11:37 pm

    ’’ہم کون ہیں؟‘‘ یہ سوال اپنی سادگی کے پردے میں گہری پیچیدگیاں سمیٹے ہوئے ہے؛ ایک ایسی گتھی جو ہر فرد، ہر قبیلے اور ہر قوم کے وجود کی بنیاد ہے۔ یہ صرف ایک استفسار نہیں بلکہ ایک جستجو ہے، ایک تلاش ہے اُس نہاں خانۂ ہستی کی، جہاں ہمارا انفرادی اور اجتماعی شعور سانس لیتا ہے۔ اس سوال کو نفسیات کی گہرائیوں‫اقرأ المزيد


    ’’ہم کون ہیں؟‘‘ یہ سوال اپنی سادگی کے پردے میں گہری پیچیدگیاں سمیٹے ہوئے ہے؛ ایک ایسی گتھی جو ہر فرد، ہر قبیلے اور ہر قوم کے وجود کی بنیاد ہے۔ یہ صرف ایک استفسار نہیں بلکہ ایک جستجو ہے، ایک تلاش ہے اُس نہاں خانۂ ہستی کی، جہاں ہمارا انفرادی اور اجتماعی شعور سانس لیتا ہے۔

    اس سوال کو نفسیات کی گہرائیوں، سماجیات کی وسعتوں اور ریاستی نظم و نسق کی نزاکتوں میں پرکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ کس طرح ہماری زبان، ہماری ثقافت، ہمارے ذرائع روزگار، اور ہمارے ابلاغی پلیٹ فارم ہماری شناخت کا تانا بانا بُنتے ہیں، اور اس سب میں ریاستی کنٹرول کا کیا کردار ہوتا ہے؟

     

    ہستی کا اضطراب: نفسیاتِ شناخت کا فلسفہ

    شناخت، بنیادی طور پر فرد کے اپنے وجود کو سمجھنے کا عمل ہے۔ یہ ایک ایسی اندرونی کیفیت ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کون ہیں، ہماری اقدار کیا ہیں، اور دنیا میں ہمارا مقام کیا ہے۔

    مشہور ماہرِ نفسیات ایرک ایرکسن (Erik Erikson) نے اپنی لازوال تھیوری ’’سائیکو سوشل ڈیولپمنٹ‘‘ میں شناخت کی تشکیل کو انسانی زندگی کا ایک مرکزی نقطہ قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک، بلوغت میں فرد کو ’’شناخت بمقابلہ کردار کے انتشار‘‘ کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، جہاں وہ اپنی ذات کی پہچان کے لیے کشمکش کرتا ہے۔ یہ کشمکش محض ذاتی نہیں بلکہ سماجی بھی ہے، کیونکہ ہم اپنی شناخت کو دوسروں کے ساتھ تعامل اور ان کے تناظر میں ہی مکمل کر پاتے ہیں۔

    سماجی سطح پر، ہنری تاجفیل (Henri Tajfel) اور جان ٹرنر (John Turner) کی ’’سوشل آئیڈینٹٹی تھیوری‘‘ اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ ہماری شناخت کا ایک بڑا حصہ اُن گروہوں سے وابستہ ہوتا ہے جن سے ہم تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تعلق محض ایک رکنیت نہیں بلکہ ایک جذباتی وابستگی ہے جو ہمیں اپنے گروہ کی خصوصیات، اس کی کامیابیوں اور اس کی خامیوں سے جوڑ دیتی ہے۔ جب ہم خود کو ایک خاندان، ایک قبیلے یا ایک قوم کا حصہ سمجھتے ہیں، تو اس گروہ کا تشخص ہماری ذات میں سمو جاتا ہے۔ یہ اجتماعی شعور ہی ہماری تہذیبی اور قومی شناخت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

     

    روحِ تہذیب: زبان اور ثقافت کا لازوال رشتہ

    کسی بھی قوم کی شناخت کے بنیادی ستون اس کی ثقافت اور زبان ہیں۔ ثقافت، دراصل صدیوں کے اجتماعی تجربات، عقائد، رسم و رواج، فنون اور طرزِ زندگی کا عکس ہے۔ یہ وہ لازوال ورثہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے، ایک قوم کو اس کے ماضی سے جوڑتا ہے اور اس کے حال کو مستقبل کی راہیں دکھاتا ہے۔ ثقافت ایک قوم کی پہچان کا آئینہ ہے، جس میں وہ اپنے خدوخال کو دیکھ کر اپنی انفرادیت کا احساس کرتی ہے۔

    زبان، اس ثقافتی روح کا جوہر اور اظہار کا سب سے طاقتور وسیلہ ہے۔ یہ محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ سوچنے، محسوس کرنے اور دنیا کو پرکھنے کا ایک منفرد زاویہ ہے۔

    ماہرِ لسانیات بینجمن لی ورف (Benjamin Lee Whorf) کے نظریے ’’لنگوئسٹک ریلیٹیویٹی ہائپو تھیسس‘‘ کے مطابق، زبان صرف ہمارے خیالات کو بیان نہیں کرتی بلکہ ان کی تشکیل بھی کرتی ہے۔ مختلف زبانیں بولنے والے افراد دنیا کو مختلف تناظر میں دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنی مادری زبان سے کٹ جاتی ہے، تو وہ اپنی ثقافتی جڑوں سے بھی محروم ہوجاتی ہے اور اس کی شناخت دھندلا جاتی ہے۔

    زبان کا تحفظ درحقیقت ثقافتی ورثے کا تحفظ ہے، اور اسی لیے یو این ای ایس سی او (UNESCO) جیسے عالمی ادارے لسانی تنوع کو انسانیت کا مشترکہ ورثہ قرار دیتے ہیں۔

     

    معاشی بساط اور تشخص کا عکس

    شناخت کا ایک اہم رُخ معاشی حیثیت اور ذرائع روزگار سے بھی وابستہ ہے۔ کسی قوم کا اقتصادی ڈھانچہ، اس کے افراد کے پیشے اور ان کے معاشی تعلقات اس کی اجتماعی شناخت پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔ ایک زرعی معاشرت، ایک صنعتی معاشرہ یا ایک جدید ٹیکنالوجی پر مبنی معاشرہ، ہر ایک کی اپنی مخصوص اقدار، طرزِ حیات اور سماجی حرکیات ہوتی ہیں۔

    مثال کے طور پر، ایک زرعی معاشرے میں فطرت سے قربت، صبر اور اجتماعی محنت کو فروغ ملتا ہے۔ اس کے برعکس، ایک صنعتی معاشرت میں وقت کی پابندی، مسابقت اور کارکردگی کو اہمیت دی جاتی ہے۔

    جب کسی قوم کو اس کے روایتی ذرائع معاش سے محروم کیا جاتا ہے یا اس کے لیے مناسب روزگار کے مواقع ناپید ہوجاتے ہیں، تو یہ نہ صرف معاشی بحران کو جنم دیتا ہے بلکہ اس کی اجتماعی شناخت میں بھی دراڑیں پیدا کردیتا ہے۔ بے روزگاری اور معاشی عدم استحکام افراد اور قوموں میں احساسِ محرومی اور بےگانگی پیدا کر کے ان کے تشخص کو مجروح کرسکتے ہیں۔

     

    میڈیا کی آغوش میں شناخت کی پرورش

    دورِ حاضر میں میڈیا کسی قوم کی شناخت کی تشکیل اور فروغ میں ایک بے پناہ طاقت کا حامل ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور خاص طور پر سوشل میڈیا، عوامی رائے کو متاثر کرتے ہیں، ثقافتی اقدار کو فروغ دیتے ہیں اور قومی ہیروز، روایات اور بیانیوں کو پیش کرتے ہیں۔ میڈیا درحقیقت ایک قوم کو ایک مشترکہ داستان، ایک مشترکہ تجربہ اور ایک مشترکہ وژن سے جوڑتا ہے۔

    تاہم، میڈیا کا کردار ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ ایک طرف، یہ کسی قوم کی ثقافتی شناخت کو نکھار سکتا ہے اور اس کی مثبت اقدار کو اجاگر کر سکتا ہے۔ دوسری طرف، اگر میڈیا پر ریاستی کنٹرول بہت زیادہ ہو یا وہ متعصبانہ پروپیگنڈا کا شکار ہو جائے، تو یہ شناخت کو مسخ کر سکتا ہے، غلط فہمیاں پھیلا سکتا ہے اور حتیٰ کہ قومی بیانیے کو بھی کمزور کر سکتا ہے۔

    نوم چومسکی (Noam Chomsky) جیسے نقادوں نے میڈیا کے کنٹرول اور اس کے عوامی شعور پر اثرات پر گہری بحث کی ہے۔ ان کے مطابق، میڈیا اکثر طاقتور اداروں کے مفادات کی ترجمانی کرتا ہے، جو ایک قوم کے حقیقی تشخص کو دبانے یا تبدیل کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ جب میڈیا صرف حکمران طبقے کی آواز بن کر رہ جاتا ہے، تو وہ عوام کے تنقیدی شعور کو سلب کر لیتا ہے اور انہیں اپنی حقیقی شناخت سے دور کر دیتا ہے۔

     

    ریاست اور شناخت کا رشتہ: جبر یا آزادی؟

    کسی بھی قوم کی شناخت کی حتمی تشکیل میں ریاست کا کردار نہایت اہم اور نازک ہوتا ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق، انسان کی شناخت اس کا بنیادی اور تسلیم شدہ حق ہے۔ اقوام متحدہ کے ’’یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس‘‘ میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ ہر فرد کو قومیت کا حق حاصل ہے اور اسے اس سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کی شناخت کا احترام کرے اور اس کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

    ریاست، اپنے قوانین، تعلیمی نصاب، قومی علامتوں اور میڈیا پالیسیوں کے ذریعے کسی قوم کی شناخت کو مستحکم یا کمزور کرسکتی ہے۔ ایک جمہوری اور لبرل ریاست، جہاں شہریوں کو اپنی زبان، ثقافت اور مذہب کا آزادانہ اظہار کرنے کی اجازت ہوتی ہے، وہاں ایک متنوع اور مضبوط قومی شناخت پروان چڑھتی ہے۔ ایسی ریاست میں مختلف لسانی، مذہبی اور ثقافتی گروہ قومی دھارے میں شامل ہوتے ہوئے بھی اپنی انفرادیت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک کثیر الثقافتی معاشرے کی بنیاد ہے جہاں تنوع کو کمزوری نہیں بلکہ طاقت سمجھا جاتا ہے۔

    اس کے برعکس، جب ریاست شناخت پر ضرورت سے زیادہ کنٹرول مسلط کرتی ہے اور صرف ایک خاص زبان، ایک خاص ثقافت یا ایک خاص بیانیے کو فروغ دیتی ہے جبکہ دوسروں کو دباتی ہے، تو قومی شناخت بحران کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ جبر نہ صرف داخلی انتشار کو جنم دیتا ہے بلکہ اقلیتی گروہوں میں محرومی اور بے گانگی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں قومی یکجہتی کے بجائے تفریق اور تصادم کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ ریاستی کنٹرول میں تعلیمی نصاب بھی شناخت کی تشکیل میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر نصابی کتب ایک متوازن تاریخی بیانیہ پیش نہ کریں اور تمام گروہوں کی نمائندگی نہ کریں، تو یہ ایک گروہ کو دوسرے سے افضل یا کمتر بنا سکتا ہے، جس سے سماجی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔

     

    عالمی تناظر اور فکری مکالمہ

    عالمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ شناخت ایک جامد حقیقت نہیں بلکہ ایک بہاؤ کا عمل ہے جو مسلسل ارتقا پذیر رہتا ہے۔ اِمائل دُرکائیم (Émile Durkheim) جیسے ماہرینِ عمرانیات نے ’’کلیکٹو کانسائنس‘‘ (اجتماعی شعور) کا تصور پیش کیا، جس سے مراد ایک معاشرے کے افراد کے مشترکہ عقائد اور اقدار کا مجموعہ ہے۔ یہی اجتماعی شعور شناخت کو تقویت دیتا ہے۔

    سید حسین نصر (Seyyed Hossein Nasr) جیسے مسلم مفکرین نے مغربی مادیت پرستی کے تناظر میں ثقافتی اور روحانی شناخت کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ حقیقی شناخت محض مادی کامیابیوں سے نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی اقدار سے جڑی ہوتی ہے۔ ایڈورڈ سعید (Edward Said) نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’اورینٹلزم‘‘ میں اس بات کو اجاگر کیا کہ کس طرح مغرب نے مشرق کی ایک مخصوص اور اکثر منفی شناخت وضع کی اور اسے اپنے سیاسی مقاصد کےلیے استعمال کیا۔ یہ نظریہ واضح کرتا ہے کہ شناخت محض داخلی عمل نہیں بلکہ بیرونی طاقتوں اور تعصبات سے بھی متاثر ہوتی ہے۔

    منطقی دلائل کی رو سے، کسی بھی قوم کی شناخت کی پختگی اور دوام کے لیے اس کی تنوع میں ہم آہنگی نہایت ضروری ہے۔ جب ایک قوم اپنے مختلف رنگوں، زبانوں اور ثقافتوں کو گلے لگاتی ہے، تو وہ زیادہ مضبوط اور لچکدار بنتی ہے۔ اس کے برعکس، جب ریاست یا کوئی غالب گروہ ایک ہی شناخت کو مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ دراصل اپنی ہی بنیادوں کو کمزور کرتا ہے۔ جبر سے حاصل ہونے والی یکجہتی مصنوعی اور عارضی ہوتی ہے۔ سچی یکجہتی تب ہی ممکن ہے جب ہر فرد اور ہر گروہ اپنی شناخت کے ساتھ قومی دھارے کا حصہ محسوس کرے۔

    دورِ حاضر کی گلوبلائزیشن نے شناخت کے سوال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ عالمی ثقافتوں کا ادغام اور معلومات کی برق رفتار ترسیل، مقامی شناختوں کو چیلنج کر رہی ہے۔ ایسے میں، ایک قوم کے لیے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے عالمی دھارے میں شامل ہونا ایک نازک توازن کا کام ہے۔ یہ ضروری ہے کہ قومیں اپنی ثقافتی جڑوں کو مضبوط رکھیں تاکہ وہ بیرونی اثرات کو مثبت انداز میں جذب کر سکیں اور اپنی شناخت کو کھو نہ دیں۔

    حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ ’’ہم کون ہیں؟‘‘ یہ سوال نہ صرف ایک ذاتی اضطراب ہے بلکہ ایک تہذیبی اور ریاستی حقیقت بھی ہے۔ یہ قوموں کی بنیاد ہے اور ان کی ترقی کا محرک۔ زبان، ثقافت، ذرائع روزگار، میڈیا اور ریاستی پالیسیاں ایک قوم کی شناخت کے تعین میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک مضبوط اور دیرپا قومی شناخت اس وقت پروان چڑھتی ہے جب ریاست اپنے شہریوں کی متنوع شناختوں کا احترام کرے، انہیں آزادانہ اظہار کا موقع فراہم کرے اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔

    جب ہم اپنی ہئیتِ ہستی کو سمجھ لیتے ہیں، تو ہم اپنے ماضی سے جڑتے ہیں، حال میں جینے کا مقصد پاتے ہیں اور مستقبل کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ شناخت کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوتا؛ یہ نسل در نسل جاری رہتا ہے، اور اسی میں انسانیت کی ترقی اور بقا کا راز پنہاں ہے۔ یہ ہر فرد اور ہر قوم کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی شناخت کو نہ صرف پہچانے بلکہ اسے مثبت انداز میں فروغ بھی دے، تاکہ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ امن اور باہمی احترام کے ساتھ رہ سکیں۔

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • ‫1 إجابة
إجابة
  • 0
Ali1234الباحث

ہیپاٹائٹس سے بچاؤ موذی بیماری کے خلاف حفاظتی اقدامات کیا ہونے چاہئیں

  • 0
  1. Ali1234 الباحث
    ‫أضاف ‫‫إجابة يوم يوليو 23, 2025 في 11:34 pm

      صحت اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جس کی حفاظت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ یہ ایک امانت ہے جس میں خیانت نہیں ہونی چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے ( بخاری )۔ مزید فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں (جن کی ناقدری کر کے ) اکثر لوگ نقصان میں رہتے ہیں صحت اور فراغت (بخاری )۔ یوں تو‫اقرأ المزيد


     

    صحت اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جس کی حفاظت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ یہ ایک امانت ہے جس میں خیانت نہیں ہونی چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے ( بخاری )۔ مزید فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں (جن کی ناقدری کر کے ) اکثر لوگ نقصان میں رہتے ہیں صحت اور فراغت (بخاری )۔ یوں توانسانی جسم کو لاتعداد بیماریاں لاحق ہوتی ہیں لیکن اسی تناظر میں ہیپاٹائٹس جیسی خاموش مگر مہلک بیماری سے آگاہی اور بچاؤ نہایت ضروری ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ افراد ہیپاٹائٹس بی یا سی کا شکار ہیں اور ہر سال تقریباً ڈیڑھ لاکھ نئے مریض سامنے آتے ہیں۔ زیادہ تر افراد میں یہ بیماری دوران علاج بے خبری میں منتقل ہوتی ہے۔ اسے خاموش قاتل اس لیے کہا جاتا ہے کہ بیشتر مریض برسوں تک تشخیص اور علاج کے بنا رہتے ہیں اور آخرکار پیچیدگیوں کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر اس بیماری کا 80 فیصد بوجھ پاکستان اور مصر پر ہے۔

    ہیپاٹائٹس، جگرکی سوزش کو کہا جاتا ہے۔ اس کی مختلف اقسام ہیں۔ عام طور پر ہیپاٹائٹس اے، ای، کھانے کے ذریعے اور ہیپاٹائٹس بی، سی اور ڈی، جلد، خون اور رطوبتوں کے ذریعے لاحق ہوتا ہے۔

    اس کے علاوہ کچھ دوسرے عوامل بھی ہیپاٹائٹس یا جگر کی سوزش کی وجہ بن سکتے ہیں جن میں کچھ دوسرے وائرس CMV,EBV ، دیگر جرثومے اور کیڑے، الکوحل، کیمیکلز ، دواؤں میں بہت زیادہ مقدار میں پیراسٹامول، ٹی بی اور مرگی کی کچھ دوائیں، ایڈز کی دوا، منع حمل دوائیں، کچھ اینٹی بائیوٹکس، جگر پر چکنائی، autoimmune اور metabolic جینیاتی وجوہات، جگر کی نالیوں کی پیدائشی خرابی اور خون کی فراہمی اچانک کم ہونا شامل ہے۔

    کم مدتی ہیپاٹائٹس (Acute Hepatitis) کیسے ہوتا ہے؟

    کم مدتی ہیپا ٹائٹس عموما ہیپاٹائٹس اے سے ہوتا ہے۔ مریض کو پیٹ میں اوپر درد ہوتا ہے، الٹی یا متلی رہتی ہے۔ تھکن بہت زیادہ ہوتی ہے، آنکھیں پیلی ہو جاتی ہیں ، پیشاب پیلا آتا ہے، بخار بھی ہو سکتا ہے۔

    l تقریباً ایک مہینے میں مریض ٹھیک ہو جاتا ہے۔

    l کم مدتی یرقان ہیپا ٹائٹس بی اور سی میں بھی ہو سکتا ہے اور تین چار مہینے میں ٹھیک ہو سکتا ہے۔

    l  ہیپاٹائٹس بی کے تقریباً ۹۵ فیصد کیسز میں (جن میں زچگی کے سواخون یا جلد سے ہوا ہو )

    l  ہیپا ٹائٹس سی کے ۱۰ فیصد کیسز میں۔

    کیا کم مدتی ہیپاٹائٹس بگڑ سکتا ہے؟

    عموماً یہ چند ہفتوں میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار، بہت کم ایسا بھی ہوتا ہے کہ fulminant hepatitis ہو جاتا ہے۔ اس میں جگر کا کام شدید متاثر ہونے سے

    l  مریض کے خون کے جمنے میں مسئلہ ہو جاتا ہے اور کہیں سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے،

    l  یا غنودگی طاری ہو کر مریض بیہوش ہو جاتا ہے۔

    Fulminate Hepatitis کا امکان اس وقت ہوتا ہے جب:

    l  ہیپا ٹائٹس بی کے ساتھ ہیپاٹائٹس ڈی ہو جائے،

    l   حمل کے دوران ہیپا ٹائٹس ای ہو جائے

    l  دواؤں سے ہیپا ٹائٹس ہو،

    l  یا autoimmune hepatitis ہو۔

    l  حمل کے دوران ہیپاٹائٹس ای ہونے سے ماں کی زندگی کو خطرہ، اسقاط حمل ، وقت سے پہلے ولادت، یا بچے کا کم وزن ہو سکتا ہے۔

    طویل مدتی یا chronic

    ہیپا ٹائٹس کیسے

    ہوتا ہے؟

    یرقان چھ مہینے سے زیادہ رہے تو اسے chronic hepatitis کہتے ہیں۔ یا اس مریض کو حامل مرض (carrier) کہتے ہیں۔ یہ بغیر علامت کے بھی ہو سکتا ہے، پیچیدہ بھی ہو سکتا ہے اور دوسروں کو منتقل بھی ہو سکتا ہے۔   

    ‫قراءة أقل
    • 0
    • شارك
      شارك
      • شارك علىفيسبوك
      • شارك على تويتر
      • شارك على لينكد إن
      • شارك على واتس آب
  • ‫1 إجابة
إجابة

القائمة الجانبية

أكتشاف

  • Nuq4 المحل
  • تصبح عضوا

الفوتر

احصل على إجابات على جميع الأسئلة الخاصة بك ، كبيرة أو صغيرة ، Nuq4.com. لدينا قاعدة بيانات في تزايد مستمر ، بحيث يمكنك دائما العثور على المعلومات التي تحتاج إليها.

Download Android App

© حقوق الطبع والنشر عام 2024 ، Nuq4.com

القانونية

الشروط والأحكام
سياسة الخصوصية
سياسة الكوكيز
سياسة DMCA
قواعد الدفع
سياسة رد
Nuq4 الهبة الشروط والأحكام

الاتصال

الاتصال بنا
Chat on Telegram
arالعربية
en_USEnglish arالعربية
نحن نستخدم ملفات تعريف الارتباط لضمان أن نقدم لكم أفضل تجربة على موقعنا على الانترنت. إذا كان يمكنك الاستمرار في استخدام هذا الموقع سوف نفترض أن كنت سعيدا مع ذلك.طيبسياسة الكوكيز
#!trpst#trp-gettext data-trpgettextoriginal=7145#!trpen#Seraphinite Accelerator#!trpst#/trp-gettext#!trpen##!trpst#trp-gettext data-trpgettextoriginal=7146#!trpen#Optimized by #!trpst#trp-gettext data-trpgettextoriginal=7145#!trpen#Seraphinite Accelerator#!trpst#/trp-gettext#!trpen##!trpst#/trp-gettext#!trpen#
#!trpst#trp-gettext data-trpgettextoriginal=7147#!trpen#Turns on site high speed to be attractive for people and search engines.#!trpst#/trp-gettext#!trpen#