اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ، جسے بون میرو ٹرانسپلانٹ بھی کہا جاتا ہے، ایک اہم طبی طریقہ کار ہے جو خراب یا بیمار بون میرو کو صحت مند اسٹیم سیلز سے بدل دیتا ہے۔ یہ صحت مند اسٹیم سیلز نئے، صحت مند خون کے خلیات بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ درج ذیل حالات میں ضروری ہو سکتا ہے: * کینسر کی بیماراقرأ المزيد
اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ، جسے بون میرو ٹرانسپلانٹ بھی کہا جاتا ہے، ایک اہم طبی طریقہ کار ہے جو خراب یا بیمار بون میرو کو صحت مند اسٹیم سیلز سے بدل دیتا ہے۔ یہ صحت مند اسٹیم سیلز نئے، صحت مند خون کے خلیات بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ درج ذیل حالات میں ضروری ہو سکتا ہے:
* کینسر کی بیماریاں: خاص طور پر خون کے کینسر جیسے لیوکیمیا (جس میں بون میرو غیر معمولی سفید خون کے خلیے بناتا ہے)، لیمفوما (لمفیٹک نظام کا کینسر)، اور ملٹیپل مائیلوما (پلازما سیلز کا کینسر)۔ ان بیماریوں میں اکثر کیموتھراپی یا ریڈی ایشن تھراپی کے بعد بون میرو کو نقصان پہنچتا ہے، جس کی بحالی کے لیے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے۔ بعض ٹھوس ٹیومرز جیسے نیوروبلاسٹوما اور کچھ دماغی ٹیومرز کے علاج میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
* بون میرو کی خرابیاں:
* ایپلاسٹک انیمیا: ایک ایسی حالت جس میں بون میرو کافی نئے خون کے خلیات پیدا کرنا بند کر دیتا ہے۔
* مائلوڈیسپلاسٹک سنڈرومز (MDS): ایک ایسی حالت جس میں بون میرو خراب یا ناکارہ خون کے خلیے بناتا ہے۔
* بون میرو فیلیر سنڈرومز
* جینیاتی بیماریاں:
* تھیلیسیمیا: خون کی ایک موروثی بیماری جس میں ہیموگلوبن کی غیر معمولی ساخت ہوتی ہے۔
* سکل سیل انیمیا: خون کی ایک اور موروثی بیماری جس میں خون کے سرخ خلیات غیر معمولی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
* شدید مشترکہ قوت مدافعت کی کمی (SCID) اور کچھ دیگر موروثی مدافعتی عوارض۔
* ان بون ایرر آف میٹابولزم
* آٹوایمیون بیماریاں: کچھ شدید آٹوایمیون بیماریاں جہاں جسم کا مدافعتی نظام اپنے ہی خلیوں پر حملہ کرتا ہے۔
اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کا مقصد:
* کینسر کے خلیات کو تباہ کرنے کے لیے دی جانے والی ہائی ڈوز کیموتھراپی یا ریڈی ایشن سے بون میرو کو بچانا یا اسے بحال کرنا۔
* خراب یا بیمار بون میرو کو نئے، صحت مند اسٹیم سیلز سے بدلنا۔
* نئے اسٹیم سیلز فراہم کرنا جو براہ راست کینسر کے خلیات کو مارنے میں مدد کر سکیں۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کا فیصلہ مریض کی مجموعی صحت، بیماری کی قسم اور شدت، اور دیگر علاج کے انتخاب پر غور کرنے کے بعد کیا جاتا ہے۔
پارکنسن (رعشہ) کے مریضوں کے لیے کھانسی کی کچھ دوائیں فائدہ مند ہو سکتی ہیں، جبکہ کچھ سے بچنا ضروری ہے۔ فائدہ مند کھانسی کی دوا: امبروکسول (Ambroxol) حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ امبروکسول (Ambroxol)، جو عام طور پر کھانسی اور بلغم کو پتلا کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، رعشہ کے مریضوں کے لیے مفید ہو سکتاقرأ المزيد
پارکنسن (رعشہ) کے مریضوں کے لیے کھانسی کی کچھ دوائیں فائدہ مند ہو سکتی ہیں، جبکہ کچھ سے بچنا ضروری ہے۔
قراءة أقلفائدہ مند کھانسی کی دوا: امبروکسول (Ambroxol)
حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ امبروکسول (Ambroxol)، جو عام طور پر کھانسی اور بلغم کو پتلا کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، رعشہ کے مریضوں کے لیے مفید ہو سکتی ہے۔ یہ دوا دماغ میں GCase نامی ایک انزائم کی سطح کو بڑھاتی ہے جو کہ رعشہ کے مریضوں میں اکثر کم ہوتا ہے۔ GCase دماغی خلیوں سے فضلہ پروٹین کو ہٹانے میں مدد کرتا ہے، جس میں الفا-سائنوکلین (alpha-synuclein) بھی شامل ہے جو کہ رعشہ کی بیماری کا ایک اہم مارکر ہے۔ ابتدائی مطالعات میں یہ دوا محفوظ اور قابلِ برداشت پائی گئی ہے اور اب اس پر بڑے پیمانے پر کلینیکل ٹرائلز جاری ہیں۔ خاص طور پر، یہ رعشہ کے ساتھ ڈیمنشیا (دماغی کمزوری) والے مریضوں میں ذہنی کارکردگی اور دماغی نقصان سے بچاؤ میں مدد کر سکتی ہے۔
بچنے والی یا احتیاط سے استعمال کی جانے والی دوائیں:
کچھ کھانسی کی ادویات یا ان کے اجزاء رعشہ کے مریضوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں اور ان سے بچنا چاہیے یا ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کرنا چاہیے:
* اینٹی کولینرجکس (Anticholinergics): جیسے کہ بیناڈرل (Benadryl) یا ڈائیفین ہائیڈرامین (Diphenhydramine)، یہ کنفیوژن، غنودگی اور یادداشت کے مسائل کا سبب بن سکتے ہیں، جو رعشہ کے مریضوں میں پہلے سے موجود ہو سکتے ہیں۔
* کوڈین (Codeine) پر مشتمل کھانسی کے شربت: یہ بھی یادداشت، سوچنے کے مسائل یا غنودگی کا باعث بن سکتے ہیں۔
* ڈیکسٹرومیتھورفان (Dextromethorphan): جو کہ بہت سی کھانسی کی دواؤں میں پایا جاتا ہے، اسے مونوامین آکسیڈیس (MAO-B) انہیبیٹرز (جیسے سیلیجلین، راساگلین، سفینامائڈ) کے ساتھ استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ سیروٹونن سنڈروم کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔
* ڈیکونجسٹنٹ (Decongestants) / سٹیمولینٹ (Stimulants): جیسے سیوڈو ایفڈرین (Pseudoephedrine) اور فینائل ایفڈرین (Phenylephrine)، جو خون کے دباؤ کو بڑھا سکتے ہیں اور رعشہ کے مریضوں میں فالج کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں، خاص طور پر اگر انہیں پہلے سے ہائی بلڈ پریشر ہو۔
* کوئی بھی دوا جو شدید غنودگی کا باعث بنے: رعشہ کے مریضوں میں گرنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اور غنودگی والی دوائیں اس خطرے کو بڑھا سکتی ہیں۔
اہم مشورہ:
ہمیشہ اپنے ڈاکٹر یا فارماسسٹ سے مشورہ کریں اس سے پہلے کہ آپ رعشہ کی بیماری کی صورت میں کوئی نئی کھانسی کی دوا استعمال کریں۔ وہ آپ کی موجودہ ادویات اور صحت کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کے لیے بہترین اور محفوظ آپشن کا انتخاب کر سکتے ہیں۔