ایندھن کا اخراج کرنے والا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک انڈیا اب بھی کوئلے پر سب سے زیادہ انحصار کرتا ہے۔ مختلف ملکوں پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اس کا استعمال ختم کر دیں تو کیا ایسے میں تیزی سے ترقی کرنے والا اور ترقی پذیر ملک انڈیا توانائی کے اس اہم وسیلے کو چھوڑ سکتا ہے؟ ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ انڈیااقرأ المزيد
ایندھن کا اخراج کرنے والا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک انڈیا اب بھی کوئلے پر سب سے زیادہ انحصار کرتا ہے۔ مختلف ملکوں پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اس کا استعمال ختم کر دیں تو کیا ایسے میں تیزی سے ترقی کرنے والا اور ترقی پذیر ملک انڈیا توانائی کے اس اہم وسیلے کو چھوڑ سکتا ہے؟
ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ انڈیا کے چیلنجز کی ایک جھلک سنہ 2006 میں میری ایک نوجوان کاروباری شخصیت شونک کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں نظر آتی ہے۔
انھوں نے مجھ سے پوچھا: ’انڈیا سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کیوں کہا جائے جبکہ مغرب کئی دہائیوں سے کرہ ارض کو آلودہ کر رہا ہے اور اس کے فوائد بھی حاصل کر رہا ہے۔
انڈیا کے شہر ممبئی سے تعلق رکھنے والی یہ کاروباری شخصیت جوتوں کی ایک فیکٹری چلاتے ہیں اور انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کی فیکٹری سے ہوا میں مضر گیسوں کا اخراج کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا ’میں ان جوتوں کو امریکہ اور برطانیہ برآمد کرتا ہوں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مغرب نے یہ اخراج ترقی پذیر ممالک کو برآمد کر دیا۔۔۔ تو اب ہم کیوں رکیں۔
اس کے بعد انڈیا کی آبادی اور معیشت کی طرح بہت کچھ بدل گیا اور عالمی اخراج میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اور جیسا کہ مغرب انڈیا پر زور ڈالتا ہے کہ وہ اپنے کاربن کے اخراج کو کم کرے تو اس کا زیادہ تر فوکس کوئلے پر ہے۔ کوئلہ سب سے مضر ایندھنوں میں سے ایک ہے اور انڈیا کی 70 فیصد سے زیادہ توانائی کا انحصار کوئلے پر ہی ہے
2018 پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں 90 سے زائد ہلاکتوں کے ساتھ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے لیے تلخ یادوں کے ساتھ رخصت ہوا لیکن 2019 کا آغاز بھی ان کے لیے اچھا نہیں تھا اور سال کے دوسرے ہی روز ایک حادثے میں چار کان کن ہلاک ہو گئے۔ یہ ہلاکتیں ضلع دکی کی حدود میں چمالانگ کے علاقے میں پیاقرأ المزيد
2018 پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں 90 سے زائد ہلاکتوں کے ساتھ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے لیے تلخ یادوں کے ساتھ رخصت ہوا لیکن 2019 کا آغاز بھی ان کے لیے اچھا نہیں تھا اور سال کے دوسرے ہی روز ایک حادثے میں چار کان کن ہلاک ہو گئے۔
یہ ہلاکتیں ضلع دکی کی حدود میں چمالانگ کے علاقے میں پیش آئیں۔ چیف انسپیکٹر مائنز بلوچستان افتخار احمد نے بتایا کہ چمالانگ میں یہ حادثہ ایک کان میں گیس بھر جانے کی وجہ سے پیش آیا۔
گزشتہ دس روز کے دوران چمالانگ اور دکی کوئلہ کانوں میں رونما ہونے والا یہ چوتھا واقعہ تھا۔ ان واقعات میں مجموعی طور پر دس کان کن ہلاک ہوئے۔
مجموعی طور پر سنہ 2018 بلوچستان کی کوئلے کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں کے لیے سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوا۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل لالہ سلطان نے بتایا کہ سنہ 2018 میں بلوچستان میں مجموعی طور پر 93 کان کن ہلاک ہوئے۔
لالہ سلطان نے اس کی سب سے بڑی وجہ حفاظتی انتظامات کے فقدان کو قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئلے کی کانوں میں حادثات سے بچنے کے لیے چار پانچ حفاظتی اقدامات ضروری ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ کان میں کام شروع کرنے سے پہلے زہریلی گیس کو چیک کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کان کے اندر آکسیجن کی موجودگی کو یقینی بنانا ہوتا ہے جبکہ ایک کان کے اندر متبادل راستہ بنانا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ کسی حادثے کی صورت میں کانکنوں کو نکالنے میں آسانی ہو۔
مزدور رہنما کے مطابق بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں ان انتظامات کو یقینی نہیں بنایا جاتا، جس کے باعث کانوں میں حادثات ایک معمول بن گئے ہیں
لالہ سلطان نے اس کی ایک بڑی وجہ ٹھیکیداری کے نظام کو بھی قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’لوگ اپنے نام پر مائننگ کے لیے اراضی الاٹ کراتے ہیں لیکن خود اس پر کام کرنے کی بجائے ان کو ٹھیکیداروں کے حوالے کرتے ہیں۔ بڑے ٹھیکیدار پھر ان کو پیٹی ٹھیکیداروں کو دیتے ہیں۔‘
لالہ سلطان کے مطابق ٹھیکیدار اور پیٹی ٹھیکیدار انسانوں کو بچانے کے لیے حفاظتی انتظامات کا خیال رکھنے کے بجائے زیادہ تر اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ کوئلہ کیسے نکالیں۔
انھوں نے بتایا کہ دکی اور چمالانگ میں اس وقت سب سے زیادہ حادثات پیش آرہے ہیں۔
مزدور رہنما کا دعویٰ ہے کہ کوئلے کی کانیں بااثر لوگوں کی ہیں۔ حادثات کی صورت میں نہ صرف ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ ان کو سیفٹی کے لوازمات کو یقینی بنانے کا بھی پابند نہیں بنایا جاتا۔
بلوچستان میں جدید صنعتیں نہ ہونے کی وجہ سے کوئلے کی کان کنی یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے۔