امریکہ اور یورپی یونین کا 15 فیصد ٹیرف پر اتفاق: کیا واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بھی تجارتی ڈیل ممکن ہے؟
Ali1234Researcher
امریکہ اور یورپی یونین کا 15 فیصد ٹیرف پر اتفاق: کیا واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بھی تجارتی ڈیل ممکن ہے؟
Share
،تصویر کا ذریعہGetty Images ،تصویر کا کیپشنامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین تجارتی معاہدے کے اعلان کے بعد ہاتھ ملا رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے بعد دنیا کے دو سب سے بڑے اقتصادی شراکت داروں کے مابین کئی ماہ سے جاری تعطل کاRead more
،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین تجارتی معاہدے کے اعلان کے بعد ہاتھ ملا رہے ہیں۔
امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے بعد دنیا کے دو سب سے بڑے اقتصادی شراکت داروں کے مابین کئی ماہ سے جاری تعطل کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے سکاٹ لینڈ میں مذاکرات کے بعد اعلان کیا ہے کہ یورپی یونین سے امریکہ برآمد کی جانے والی تمام اشیا پر 15 فیصد ٹیرف عائد ہو گا۔
یہ اس 30 فیصد درآمدی ٹیکس کا نصف ہے جو ٹرمپ نے جمعہ سے لاگو کرنے کی دھمکی دی تھی۔ انھوں نے کہا کہ امریکی برآمد کنندگان اپنی کچھ مصنوعات صفر فیصد ٹیرف کے ساتھ یورپی منڈیوں میں بیچ سکیں گے۔
لیکن اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے بالآخر واشنگٹن اور برسلز کے رہنماؤں کو آمنے سامنے بیٹھنا پڑا۔
یہی چیز ہم نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے معاہدوں میں بھی دیکھی ہے – صدر ٹرمپ کی ذاتی شمولیت کے باعث ہی یہ معاہدے طے ہو پائے ہیں۔
یہ معاہدہ دونوں فریقوں کے لیے اہم ہے کیونکہ بہت سارے لوگوں کے کاروبار اور ملازمتوں کا انحصار اس لین دین پر منحصر ہے جسے یورپی یونین ’دنیا کا سب سے بڑا باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کا رشتہ‘ قرار دیتا ہے۔
صدر ٹرمپ اور یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین دونوں ہی اسے ایک فتح کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔
یورپی یونین کی مصنوعات پر عائد 15 فیصد ٹیرف برطانیہ کے 10 فیصد ٹیرف معاہدے جتنی اچھی ڈیل تو نہیں لیکن یہ اِس سے بھی کہیں بدتر ہو سکتی تھی۔
اس معاہدے سے ٹیرف ریونیو کی مد میں امریکی خزانے میں 90 ارب ڈالرز آنے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ اب ملک میں 600 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی متوقع ہے۔
فی الحال ان سوالات کے جوابات نہیں ملے کہ یہ سرمایہ کاری کب اور کن شعبوں میں کی جائے گی۔
اس معاہدے کو تاریخی معاہدہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن یہاں تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔
* پاکستان کا درآمدی مصنوعات پر ٹیرف کم کرنے کا فیصلہ: کیا قیمتیں کم ہوں گی یا صرف امیر طبقے کو فائدہ پہنچے گا؟
* انڈیا کو برکس کے اندر امریکہ اور اسرائیل کا ’ٹروجن ہارس‘ کیوں کہا گیا؟
واشنگٹن اور 27 ملکی اتحاد دونوں میں سے کوئی بھی آسانی سے ہار ماننے کو تیار نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ مذاکرات آخری وقت تک جاری رہے۔
لیکن کوئی بھی فریق نہیں چاہتا تھا کہ یہ مذاکرات یکم اگست کی ڈیڈ لائن سے آگے بڑھیں۔
کئی برسوں سے، امریکی صدر یورپ کے غیر منصفانہ تجارتی طریقوں کے خلاف آواز اٹھاتے آئے ہیں۔
یہ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ صدر ٹرمپ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کی باقی دنیا کے ساتھ تجارت کو نئی شکل دینے میں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ یورپی یونین 27 ممالک پر مشتمل ایک اتحاد ہے یہ صدر ٹرمپ کے لیے تجارتی معاہدوں میں سے ایک مشکل ترین معاہدہ تھا۔
اس سے قبل امریکہ دیگر کئی ممالک بشمول جاپان، برطانیہ، انڈونیشیا اور کمبوڈیا کے ساتھ کامیابی سے تجارتی معاہدے طے کر چکا ہے۔ تاہم، اب بھی کئی مشکل مذاکرات رہتے ہیں جن میں چین، میکسیکو اور کینیڈا کے ساتھ ممکنہ تجارتی معاہدے شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ کے موڈ کو دیکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ شاید اگلے 48 گھنٹوں میں مزید اچھی خبر سننے کو ملے۔
امریکہ اور چین کے درمیان سوموار اور منگل کو سوئیڈن میں تجارتی مذاکرات کا تیسرا دور ہونے جا رہا ہے۔
کچھ لوگوں کو توقع ہے کہ شاید چینی مصنوعات ہر محصولات کا اطلاق مزید 90 روز کے لیے ملتوی کر دیا جائے۔
کچھ دن پہلے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات بہتری کی جانب جا رہے ہیں۔ انھوں نے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی تھی کہ نایاب دھاتوں کی برآمدات کے حوالے سے معاملات طے پا گئے ہیں۔
یورپی یونین کے ساتھ معاہدے کے بعد بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بیجنگ کے ساتھ بات چیت میں امریکہ کو برتری حاصل ہو سکتی ہے۔
تاہم امریکہ کے دیگر تجارتی شراکتداروں کے برعکس، چین کافی غیر لچکدارانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
اور اگر دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو آنے والے مہینوں میں عالمی تجارت اب بھی مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے