انڈیا کے سب سے امیر شخص کا بھائی کیسے دیوالیہ ہوا؟
Share
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Please briefly explain why you feel this question should be reported.
Please briefly explain why you feel this answer should be reported.
Please briefly explain why you feel this user should be reported.
’ایک بار کامیابی مل جائے تو اگلی کامیابی آسان ہو جاتی ہے۔‘ انیل امبانی نے یہ بات سنہ 2004 میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی تھی۔ یقیناً اس وقت وہ ریلائنس انڈسٹریز کے لیے کام کر رہے تھے جس کی بنیاد ان کے والد دھیرو بھائی امبانی نے رکھی تھی اور انھیں اپنے بڑے بھائی مکیش امبانی کی حمایت حاصلRead more
’ایک بار کامیابی مل جائے تو اگلی کامیابی آسان ہو جاتی ہے۔‘ انیل امبانی نے یہ بات سنہ 2004 میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی تھی۔
یقیناً اس وقت وہ ریلائنس انڈسٹریز کے لیے کام کر رہے تھے جس کی بنیاد ان کے والد دھیرو بھائی امبانی نے رکھی تھی اور انھیں اپنے بڑے بھائی مکیش امبانی کی حمایت حاصل تھی۔
لیکن اگلے چند مہینوں میں حالات تیزی سے بدل گئے اور دونوں بھائیوں نے خاندانی کاروبار کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔
انیل امبانی کو وہ ملا جو وہ چاہتے تھے یا جو ان کی شخصیت کی عکاسی کرتا تھا جیسے ٹیلی کام، مالیاتی خدمات اور توانائی جیسے نئے دور کے کاروبار۔
اگرچہ ریلائنس گروپ کا بنیادی کاروبار پیٹرو کیمیکل تھا لیکن انیل امبانی جو اس وقت انتہائی پر اعتماد تھے، انھیں ان نئے دور کے کاروباروں میں ترقی کے زیادہ امکانات نظر آئے۔
انڈیا ٹیلی کام انقلاب کے عروج پر تھا اور توانائی، انشورنس اور مالیاتی خدمات میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے اپنے دروازے کھول رہا تھا۔
ایسے میں انیل امبانی نے 2006 میں انیل دھیرو بھائی امبانی گروپ (ADAG) قائم کیا۔
بہت سے تجزیہ کار انیل کی قیادت میں ریلائنس گروپ پر بھی شرط لگا رہے تھے۔ 2008 میں انھوں نے ریلائنس پاور کا آئی پی او لانچ کیا۔
یہ انڈین سٹاک مارکیٹ کے لیے ایک تاریخی لمحہ تھا کیونکہ آئی پی او کو صرف چند منٹ میں اوور سبسکرائب کر دیا گیا۔
پیش کردہ حصص کی تعداد سے تقریباً 69 گنا کے لیے بولیاں لگائی گئیں۔ یہ اس وقت انڈیا کا سب سے بڑا آئی پی او تھا۔
2008 میں فوربز میگزین کے ایک سروے میں انیل امبانی 42 ارب ڈالر کی مجموعی مالیت کے ساتھ دنیا کے چھٹے امیر ترین شخص تھے۔
نسلوانیا کی وارٹن یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنے والے انیل امبانی نے ایک پاور کمپنی بنائی لیکن ان کی اپنے بڑے بھائی مکیش امبانی سے لڑائی ختم نہیں ہوئی اور یہ لڑائیاں اس کاروبار کی راہ میں آ گئیں۔
سینیئر کاروباری صحافی پون کمار کہتے ہیں کہ انیل امبانی نے دادری گیس پروجیکٹ شروع کیا تھا۔ اس کے لیے کرشنا گوداوری بیسن (KGD-6) سے سستے نرخوں پر گیس حاصل کی جانی تھی۔ کے جی ڈی 6 کے مالکانہ حقوق مکیش امبانی کے پاس تھے۔ انھوں نے سستے نرخوں پر گیس دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ لڑائی سپریم کورٹ تک پہنچی۔‘
2010 میں سپریم کورٹ نے بھائیوں (انیل اور مکیش) کو خاندانی تصفیہ پر دوبارہ بات چیت کرنے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ عدالت نے گیس کی قیمت مقرر کرنے کا حق بھی حکومت کو دے دیا۔
نئے معاہدے کے مطابق گیس کی قیمت 4.2 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو (ملین میٹرک برٹش تھرمل یونٹ) مقرر کی گئی جبکہ سنہ 2005 میں دونوں بھائیوں نے 17 سال کے لیے قیمت 2.34 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی تھی۔
اس کے علاوہ انیل امبانی نے جنوبی افریقہ کی ٹیلی کام کمپنی ایم ٹی این کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ معاہدہ بھی کامیاب نہ ہو سکا۔
ٹیلی کام میں توسیع کے بہت زیادہ امکانات تھے لیکن اس کے لیے بھی بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت تھی۔
بزنس جرنلسٹ اسیم منچندا کہتے ہیں کہ ’ایسا لگ رہا تھا کہ انیل امبانی کے داؤ بیک فائر کرنے لگے ہیں۔ انیل ایسے پروجیکٹس میں کودتے تھے جن کے لیے ہزاروں کروڑ روپے درکار ہوتے تھے۔ وہ بیرون ملک کمپنیاں خریدنے اور اپنی سلطنت کو بڑھانے میں بے دریغ خرچ کر رہے تھے۔‘
اور پھر 2008 میں امریکہ میں لیمن برادرز کے خاتمے سے پوری دنیا معاشی کساد بازاری کی زد میں آ گئی۔ انیل امبانی بھی اس سے بچ نہ سکے۔
صحافی پون کمار کا کہنا ہے کہ ’لیمن برادرز کیس کے بعد انڈیا میں بھی بینکنگ سیکٹر کے لیے قوانین سخت کر دیے گئے، صنعت کاروں کو بھی قرضے حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انیل امبانی اپنے کاروبار کو بڑھا رہے تھے اور انھیں سرمائے کی ضرورت تھی لیکن اب انھیں اس کی شدید کمی تھی۔‘
2011 میں مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) نے مبینہ ٹو جی سپیکٹرم بدعنوانی میں انل امبانی سے پوچھ گچھ کی تھی۔
تقریباً 22 سال قبل مکیش امبانی اور انیل امبانی کے درمیان دولت کی تقسیم کی لمبی لڑائی ہوئی تھی
تقریباً 22 سال قبل مکیش امبانی اور انیل امبانی کے درمیان دولت کی تقسیم کی لمبی لڑائی ہوئی تھی