انڈین پنجاب میں حالیہ حملے اور گرفتاریاں: کیا انڈیا میں 'خالصتان تحریک' دوبارہ زور پکڑ رہی ہے؟
Ali1234Researcher
انڈین پنجاب میں حالیہ حملے اور گرفتاریاں: کیا انڈیا میں 'خالصتان تحریک' دوبارہ زور پکڑ رہی ہے؟
Share
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Please briefly explain why you feel this question should be reported.
Please briefly explain why you feel this answer should be reported.
Please briefly explain why you feel this user should be reported.
نڈیا کی ریاست پنجاب 1980 اور 90 کی دہائی میں شدت اختیار کرنے والی عسکریت پسند خالصتان تحریک کے بعد سے زیادہ تر پُرسکون رہی ہے تاہم گذشتہ دنوں میں پنجاب میں کچھ ایسی سرگرمیاں ہوئی ہیں جو پرانے دنوں کی یاد دلاتی ہیں۔ خالصتان تحریک سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن بنانے کا مطالبہ تھا جس کے دوران پُرتشدد کارRead more
نڈیا کی ریاست پنجاب 1980 اور 90 کی دہائی میں شدت اختیار کرنے والی عسکریت پسند خالصتان تحریک کے بعد سے زیادہ تر پُرسکون رہی ہے تاہم گذشتہ دنوں میں پنجاب میں کچھ ایسی سرگرمیاں ہوئی ہیں جو پرانے دنوں کی یاد دلاتی ہیں۔
خالصتان تحریک سکھوں کے لیے ایک علیحدہ وطن بنانے کا مطالبہ تھا جس کے دوران پُرتشدد کارروائیاں ہوئیں اور درجنوں جانوں کا ضیاں ہوا۔
رواں ماہ نو مئی کو موہالی میں پنجاب پولیس کے انٹیلیجنس ونگ پر آر پی جی سے فائرنگ کی گئی۔ موہالی میں ہوئے اس حملے سے ایک دن پہلے پنجاب پولیس نے سرحدی ضلع ترن تارن سے آر ڈی ایکس سے بھرے دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) برآمد کرنے کے دعوے کے بعد دو افراد کو گرفتار کیا۔
اس سے تین دن پہلے ریاست ہریانہ کی پولیس نے کرنال سے تین دیسی ساختہ بم اور ایک پستول کی برآمدگی کرتے ہوئے چار افراد کو گرفتار کیا جبکہ اسی دوران ہمالیائی ریاست ہماچل پردیش کی اسمبلی پر خالصتان کا پرچم لگا ہوا ملا۔ سی دورانیے میں بیرون ممالک میں مقیم خالصتان تحریک سے منسلک کئی رہنماؤں نے بھی علیحدگی پسندی پر مبنی پیغامات بھی نشر کیے
یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سبھی واقعات ایک مشترکہ کوشش کا حصہ ہیں یا علیحدہ علیحدہ واقعات ہیں لیکن تھوڑے سے عرصے میں یکے بعد دیگرے پیش آنے والے ان واقعات نے چند پریشان کُن سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعات ’توجہ حاصل کرنے کے لیے ہیں‘ کیونکہ خالصتان تحریک کی اب عام لوگوں میں حمایت موجود نہیں ہے۔
گرو نانک دیو یونیورسٹی کے سینیئر پروفیسر کلدیپ سنگھ کہتے ہیں کہ خالصتان کی ملک کے باہر سے حمایت کے باوجود ’مجھے پنجاب میں عسکریت پسندی کے دوبارہ زندہ ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ میرا ماننا ہے کہ پنجاب میں ایسے گروہوں کے لیے اب کوئی حمایت نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ عوام کی حمایت کے بغیر کہیں بھی عسکریت پسندی زندہ نہیں رہ سکتی۔‘
پنجاب یونیورسٹی کے سینیئر پروفیسر رونکی رام بھی اُن سے اتفاق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ان کی (خالصتان تحریک) مخالفت سول سوسائٹی کے طرف سے ہی نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے بھی ہے۔ تمام اپوزیشن جماعتیں اس مسئلے کی مخالفت کے موضوع پر یک زبان ہیں۔‘
ان معاملات کا جائزہ لینے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ خالصتان تحریک تھی کیا اور اب کہاں کھڑی ہے۔
سکھوں کے سب سے مقدس مذہبی مقام گولڈن ٹیمپل میں موجود اکال تخت کو 1984 کے فوجی آپریشن میں بہت نقصان پہنچا تھا
سکھوں کے سب سے مقدس مذہبی مقام گولڈن ٹیمپل میں موجود اکال تخت کو 1984 کے فوجی آپریشن میں بہت نقصان پہنچا تھا