لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پاکستان بدر کرنے کی چار ممکنہ وجوہات کیا ہیں
Share
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Please briefly explain why you feel this question should be reported.
Please briefly explain why you feel this answer should be reported.
Please briefly explain why you feel this user should be reported.
پاکستان نے افغان پناہ گزین کی وطن واپسی کا دوسرا مرحلہ یکم اپریل سے شروع کیا ہے۔ نومبر 2023 سے شروع ہونے والے پہلے مرحلے میں حکام کے مطابق آٹھ لاکھ افغان پناہ گزین یا تو خود اپنے وطن واپس جا چکے ہیں یا انھیں حکومتِ پاکستان نے زبردستی ملک بدر کر دیا ہے۔ پہلے مرحلے میں صرف غیر قانونی تارکین وطن کو نRead more
پاکستان نے افغان پناہ گزین کی وطن واپسی کا دوسرا مرحلہ یکم اپریل سے شروع کیا ہے۔ نومبر 2023 سے شروع ہونے والے پہلے مرحلے میں حکام کے مطابق آٹھ لاکھ افغان پناہ گزین یا تو خود اپنے وطن واپس جا چکے ہیں یا انھیں حکومتِ پاکستان نے زبردستی ملک بدر کر دیا ہے۔
پہلے مرحلے میں صرف غیر قانونی تارکین وطن کو نشانہ بنایا گیا اور پاکستان کے اس وقت کے عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور بہت سے واقعات میں ’غیر قانونی افغان شہری‘ ملوث ہیں۔
حکومت نے اس وقت واضح کر دیا تھا کہ قانونی دستاویزات رکھنے والے تارکین وطن کو ملک بدر نہیں کیا جائے گا تاہم کچھ حکام نے اشارے دیے تھے کہ مستقبل میں قانونی دستاویزات رکھنے تارکین وطن کو بھی ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
اور اب دوسرے مرحلے میں ان پناہ گزین کو ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود ہیں۔
اس سال فروری میں پاکستانی مرکزی حکومت کی کابینہ نے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو یکم اپریل سے افغانستان واپس بھیجا جائے گا اور یکم جولائی سے پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ ہولڈرز کے کو بھی افغانستان واپس بھیجا جائے.
پاکستانی حکومت یا عوام افغان پناہ گزین کی واپسی کے پیچھے کون سی وجوہات بتاتے ہیں اور یہ وجوہات کس حد تک درست ہیں یا محض بہانے ہیں؟ بی بی سی نے اس معاملے پر کچھ تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔
سکیورٹی چیلنجز
نومبر 2023 میں افغان پناہ گزین کی واپسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے عبوری وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا تھا کہ جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں پاکستان میں ’دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے‘ اور یہ کہ تحریکِ طالبان پاکستان یا غیر قانونی طور پر مقیم افعان شہری بہت سے واقعات میں ملوث ہیں۔
کاکڑ کے مطابق سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے جنگجوؤں میں سے 64 ’افغان شہری‘ تھے۔
پاکستان میں دہشت گردی اور سفارتی تنازعات کے علاوہ پاکستانی حکومت افغان پناہ گزین پر ’ریاست مخالف تحریکوں اور مظاہروں‘ میں حصہ لینے کا الزام بھی لگاتی ہے.
پاکستان میں دہشت گردی اور سفارتی تنازعات کے علاوہ پاکستانی حکومت افغان پناہ گزین پر ’ریاست مخالف تحریکوں اور مظاہروں‘ میں حصہ لینے کا الزام بھی لگاتی ہے.