نیتن یاہو کے ساتھ حکومت بنانے والا اتحادی گروپ ’مذہبی صیہونیت‘ کیا ہے؟
Share
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Please briefly explain why you feel this question should be reported.
Please briefly explain why you feel this answer should be reported.
Please briefly explain why you feel this user should be reported.
ان کے پیروکاروں کا نعرہ ہوتا تھا ’عرب مردہ باد‘۔ اب جبکہ اوتمسا یہودیت جماعت اسرائیل کی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے۔ اس کے سب سے مقبول رہنما اتامر بن گویر خود کو ایک مرکزی دھارے کے سیاستدان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کے حامی ریلیوں میں ’دہشت گردوں کے لیے موت‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ ان کی پاRead more
ان کے پیروکاروں کا نعرہ ہوتا تھا ’عرب مردہ باد‘۔
اب جبکہ اوتمسا یہودیت جماعت اسرائیل کی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے۔ اس کے سب سے مقبول رہنما اتامر بن گویر خود کو ایک مرکزی دھارے کے سیاستدان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کے حامی ریلیوں میں ’دہشت گردوں کے لیے موت‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔
ان کی پارٹی ’مذہبی صیہونیت‘ نامی نظریاتی اتحاد کا حصہ ہے۔ اس اتحاد میں شامل انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو ان انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی ہے اور نیتن یاہو نے ان انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ حکومتی اتحاد بنانے کا اعلان کیا ہے۔ انتہائی دائیں بازو، یہودی بالادستی اور عرب مخالف نظریاتی اتحاد ’مذہبی صیہونیت‘ کی اسرائیلی انتخابات میں بے مثال کامیابی نے وہ حاصل کر لیا ہے جو ایک سال پہلے ناممکن نظر آتا تھا اور وہ ہے نیتن یاہو کی بطور وزیر اعظم واپسی۔ وہ چھٹی بار اسرائیل کے وزیر اعظم ہوں گے۔
بُدھ کو 73 برس کے سیاست دان نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ انھیں نئی حکومت بنانے کے لیے کنیسٹ (پارلیمنٹ) میں کافی حمایت حاصل ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’گذشتہ انتخابات میں ہمیں ملنے والی زبردست عوامی حمایت کی بدولت میں ایک ایسی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا جو تمام اسرائیلی شہریوں کے فائدے کے لیے کام کرے گی۔‘
سات دہائیوں میں پہلی بار ملک پر انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد حکومت کرے گا۔
مذہبی صیہونیت اور دیگر الٹرا آرتھوڈوکس گروہوں کی بدولت، نیتن یاہو نے پارلمینٹ میں حکومتی اتحاد بنایا ہے۔
تاہم اس حکومت کا استحکام ایک کھلے عام نسل پرست اور انتہائی قوم پرست اتحاد پر منحصر ہو گا، جس کے سب سے مقبول رہنما ایک ایسی شخصیت ہیں، جنھوں نے برسوں تک اپنے کمرے میں ایک ایسے یہودی بنیاد پرست کی تصویر لٹکائے رکھی جس نے الخلیل میں قتل عام کروایا تھا۔
’مذہبی صیہونیت‘ نامی نظریاتی تحریک میں شامل جماعتیں (اوتمسا یہودیت، نوم اور مذہبی زیونیسٹ پارٹی) اسرائیل کی سیاست میں اب تک زیادہ کامیاب نہیں تھیں۔
روایتی دائیں بازو کے حلقوں نے بھی ان کی بنیاد پرستی اور عرب مخالف بیان بازی کی وجہ سے ان سے منہ موڑ لیا تھا۔
نیتن یاہو کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے ان کی جماعت لیکود کے ساتھ اتحاد نے سماجی طور پر ان کی پوزیشن کو بحال کر دیا ہے، یہاں تک کہ وہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اپنی موجودگی کو 6 سے 14 نشستوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اگرچہ سرکاری طور پر اس اتحاد میں دوسرے نمبر کی جماعت کے اہم رکن ایتامر بین گویر ہیں، جو اس اتحاد کے لیے ووٹ حاصل کرنے میں انتہائی اہم رہے ہیں۔
اوتمسا یہودیت نامی جماعت کے یہ رہنما، جن کی ماضی میں نسل پرستی اور نفرت کے لیے اکسانے پر مذمت کی گئی، مغربی کنارے میں ایک یہودی بستی میں رہائش پذیر ہیں اور اپنی اشتعال انگیزی کے لیے جانے جاتے ہیں۔
ان کے سخت گیر خیالات کی وجہ سے فوج نے انھیں لازمی فوجی سروس سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔
گذشتہ اکتوبر میں وہ اس وقت خبروں میں آئے جب مشرقی یروشلم کے علاقے شیخ جراح میں ان پر پتھر برسائے گئے اور انھوں نے پستول نکال لی۔ بین گویر نے پولیس کو کہا کہ وہ اس واقعے کے ذمہ داران کو گولیاں مار دیں۔
46 برس کے انتہائی سخت گیر سیاست دان جو نئی حکومت میں وزارت داخلہ سنبھالیں گے، انتہائی قوم پرست رابی میئر کہانے کے پیروکار رہے ہیں۔
بین گویر، میئر کہانے کی جماعت کاچ کے رکن رہے ہیں، جس پر انسداد دہشتگردی قوانین کے تحت 1994 میں پابندی لگا دی گئی تھی۔
اوتمسا یہودیت کے رہنما اتامر بن گویراپنی اشتعال انگیزی کے لیے جانے جاتے ہیں
اوتمسا یہودیت کے رہنما اتامر بن گویراپنی اشتعال انگیزی کے لیے جانے جاتے ہیں



See less