ٹرمپ اور انڈیا: تھوڑی خوشی، تھوڑا غم
Share
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Please briefly explain why you feel this question should be reported.
Please briefly explain why you feel this answer should be reported.
Please briefly explain why you feel this user should be reported.
فی الحال سوال زیادہ ہیں اور جواب کم کیونکہ ابھی کسی کو یہ نہیں معلوم کہ وائٹ ہاؤس میں سکونت اختیار کرنے والے صدر وہی ٹرمپ ہوں گے جو انتخابی مہم میں نظر آئے تھے یا نئے عہدے کی بے پناہ ذمہ داریاں اور نئے سیاسی اور سفارتی تقاضے انھیں کچھ بدل دیں گے۔ روایتاً رپبلکن پارٹی کے دور اقتدار میں دونوں ملکوں کےRead more
فی الحال سوال زیادہ ہیں اور جواب کم کیونکہ ابھی کسی کو یہ نہیں معلوم کہ وائٹ ہاؤس میں سکونت اختیار کرنے والے صدر وہی ٹرمپ ہوں گے جو انتخابی مہم میں نظر آئے تھے یا نئے عہدے کی بے پناہ ذمہ داریاں اور نئے سیاسی اور سفارتی تقاضے انھیں کچھ بدل دیں گے۔
روایتاً رپبلکن پارٹی کے دور اقتدار میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں زیادہ گرمجوشی نظر آتی ہے لیکن صدر اوباما اور وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان بھی کافی قربت تھی۔ نریندر مودی اس بے تکلفی کا اظہار کرنے کے لیے پریس کانفرنس میں بھی صدر اوباما کو ’براک‘ کہہ کر پکارتے تھے اور گذشتہ برس امریکہ نے انڈیا کو ’اہم دفاعی پارٹنر‘ کا درجہ بھی دیا تھا۔
امریکہ ہندوستان کو اپنا فطری حلیف سمجھتا ہے اور عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حکومتوں کے بدلنے سے ملکوں کی خارجہ پالیسیوں میں کوئی انقلابی تبیدلیاں نہیں آتیں، یہ ضرور ہے کہ نئی حکومتوں کی ترجیحات مختلف ہو سکتی ہیں۔
جواب شاید یہ ہے کہ فی الحال تھوڑی خوشی تھوڑا غم ہی بہتر رہے گا، کیونکہ انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے تین چار ایسی باتیں کہیں جو براہ راست ہندوستان پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
صدر ٹرمپ اگر حسب وعدہ امیگریشن پر سخت حکمت عملی اختیار کرتے ہیں تو انڈیا سےسافٹ ویئر انجینیئروں اور دوسرے پروفیشنلز کے امریکہ جا کر کام کرنے یا وہاں پڑھنے جانے والے طلبہ کے لیے یہ بری خبر ہو گی۔ اگر وہ نوکریاں امریکہ واپس لانے کے لیے امریکی کمپنیوں کو ’آف شورنگ‘ ختم کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو انڈیا میں کال سینٹر بزنس پر اثر پڑے گا اور یہاں سرمایہ کاری متاثر ہو گی۔
صدر ٹرمپ امریکی صنعت کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور وزیر اعظم مودی کا پسندیدہ پروگرام ہے ’میک ان انڈیا۔‘
صدر ٹرمپ اگر چین کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کرتے ہیں تو یہ صرف انڈیا کے لیے نہیں دوسری ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے بھی بری خبر ہو گی۔
اگر وہ مسئلہ کشمیر میں مصالحت کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران عندیہ دیا تھا، تو یہ انڈیا کو منظور نہیں ہو گا۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران پاکستان میں شدت پسندی کے بارے میں بھی سخت زبان استمعال کی تھی اور انڈیا کو امید ہو گی کہ وہ پاکستان کے ساتھ زیادہ سخت موقف اختیار کریں گے
ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی میں کئی چیزیں مشترک بھی ہیں
ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی میں کئی چیزیں مشترک بھی ہیں


See less