کیا پرانی گاڑیوں کی درآمد پر ریلیف کے بعد ان کی قیمت کم ہو سکتی ہے؟
Share
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Please briefly explain why you feel this question should be reported.
Please briefly explain why you feel this answer should be reported.
Please briefly explain why you feel this user should be reported.
ل پاکستان موٹرز ڈیلرز اسوی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت پرانی گاڑیاں گفٹ سکیم کے تحت درآمد کی جاتی ہیں جن پر عائد ڈیوٹی اور ٹیکسز ڈالر میں وصول کیے جاتے ہیں جو حکومت کے لیے آمدن کا ایک ذریعہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس شخص کے نام پر گاڑی آتی ہے، وہی اس کی ڈیوٹی اور ٹیکسزRead more
ل پاکستان موٹرز ڈیلرز اسوی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت پرانی گاڑیاں گفٹ سکیم کے تحت درآمد کی جاتی ہیں جن پر عائد ڈیوٹی اور ٹیکسز ڈالر میں وصول کیے جاتے ہیں جو حکومت کے لیے آمدن کا ایک ذریعہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جس شخص کے نام پر گاڑی آتی ہے، وہی اس کی ڈیوٹی اور ٹیکسز ڈالر میں ادا کرنے کا پابند ہے، لہذا ان کے بقول یہ واحد امپورٹڈ چیز ہے جس پر حکومت کو ڈالر میں آمدن ہوتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں گفٹ سکیم کے تحت درآمد کی جانے والی گاڑیوں پر کتنی ڈیوٹی اور ٹیکسز ہیں، اس بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ چھوٹی 660 سی سی گاڑیوں پر 50 فیصد کسٹم ڈیوٹی کے علاوہ مختلف ٹیکسز ملا کر 90 فیصد تک وصول کیا جاتا ہے جو کہ 1300 سی سی تک کی کار کے لیے 110 فیصد اور 1500 سی سی کے لیے 130 فیصد تک ہے۔ ان بڑی کاروں پر 60 فیصد سے 100 فیصد تک صرف کسٹم ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ڈیوٹی میں کمی اور پانچ سال تک پرانی گاڑیوں کا ریلیف قیمتوں میں بڑی کمی کا سبب بن سکتے ہیں۔
وہ مثال دیتے ہیں کہ اگر تین سال پرانی گاڑی ’میرا‘ قریب پانچ ہزار ڈالر کی ہے تو یہی کار پانچ پرانی ہو تو ڈھائی ہزار ڈالر تک کی مل سکتی ہے۔ یعنی ساڑھے سات لاکھ روپے صرف گاڑی کی قیمت میں کم ہوجاتے ہیں جبکہ ڈیوٹی میں ریلیف مزید کمی کا باعث بن سکتا ہے۔
شہزاد پوچھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کیوں نہ مقامی صنعت کا درآمد شدہ گاڑیوں سے برابر کا مقابلہ ہو۔ ’ہماری گاڑیوں میں لوکلائزیشن نہیں، ہم اسمبلر ہیں۔ جب تک لوکلائزیشن نہیں ہو گی، ہم سستی کار نہیں بنا سکتے۔‘
انھوں نے کہا کہ مقامی طور پر اسمبل ہونے والی گاڑیاں، چونکہ اتنی لوکلائزڈ نہیں، اس لیے ان کے پارٹس کی درآمد پر ڈیوٹی کا فارمولہ الگ ہے جس میں حکومت نے اس شعبے کو بعض رعایتیں دے رکھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی درآمد پر ریلیف ملک میں گاڑیوں کی اسمبلی کے لیے موجودہ پالیسیوں پر نظرثانی کا موقع ہے،کیونکہ یہ ممکن ہے کہ پانچ سال پرانی گاڑی کی درآمد پر چھوٹ ان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔