برطانیہ میں سیکس گرومنگ: الزام صرف برطانوی پاکستانیوں پر کیوں؟
Share
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Please briefly explain why you feel this question should be reported.
Please briefly explain why you feel this answer should be reported.
Please briefly explain why you feel this user should be reported.
،تصویر کا کیپشنسویلا بریورمین نے بی بی سی کے ’سنڈے ود لورا کیونسبرگ‘ نامی پروگرام میں کہا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ ان گینگز میں اکثریت برطانوی پاکستانی مردوں کی ہے۔‘ مضمون کی تفصیل مصنف,خدیجہ عارف عہدہ,بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن 15 اپريل 2023 برطانوی وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے حال ہی میں بار بار ایRead more
،تصویر کا کیپشنسویلا بریورمین نے بی بی سی کے ’سنڈے ود لورا کیونسبرگ‘ نامی پروگرام میں کہا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ ان گینگز میں اکثریت برطانوی پاکستانی مردوں کی ہے۔‘
مضمون کی تفصیل
برطانوی وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے حال ہی میں بار بار ایسے بیانات دیے کہ ملک میں کم عمر سفید فام لڑکیوں کو سیکس کے لیے استعمال کرنے والے گرومنگ گینگز کے پیچھے اکثریت پاکستانی نژاد برطانوی مردوں کی ہے۔
یہ بیانات ایک بڑے تنازع کی وجہ بن گئے ہیں۔ اس کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے یہ بیانات خود وزیر داخلہ کی 2020 کی اس رپورٹ کے برعکس ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ سیکس گرومنگ کے کیسز میں مجرم پائے جانے والوں میں سب سے زيادہ تعداد سفید فام برطانوی شہریوں کی ہے۔
وزیر داخلہ کے اس بیان سے برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی افراد ناصرف ناراض ہیں بلکہ انھوں نے وزیراعظم رشی سونک سے معافی مانگنے کا مطالبہ ہے۔
برطانیہ میں درجنوں مسلم تنظیموں نے رشی سونک کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر داخلہ کا بیان ’نسل پرستی پر مبنی ہے اور سماج کو منقسم کرنے والا ہے
،تصویر کا کیپشنمصنف سلیل ترپاٹھی کا کہنا تھا کہ ’گرومنگ گینگز ضروری نہیں کہ پاکستانی نژاد مرد ہو، یا ایشیئن ہی ہوں۔ مسئلہ برطانوی سوسائٹی میں ہے۔ حکومت کو اس سے نمٹنا ہوگا
،تصویر کا کیپشنمصنف سلیل ترپاٹھی کا کہنا تھا کہ ’گرومنگ گینگز ضروری نہیں کہ پاکستانی نژاد مرد ہو، یا ایشیئن ہی ہوں۔ مسئلہ برطانوی سوسائٹی میں ہے۔ حکومت کو اس سے نمٹنا ہوگا