چائے، زندگی کی لہر
Share
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Please briefly explain why you feel this question should be reported.
Please briefly explain why you feel this answer should be reported.
Please briefly explain why you feel this user should be reported.
صبح سویرے آنکھ کھلتے ہی گرم گرم چائے کی پیالی زندگی کو ایک نئی نوید دیتی ہے۔ شہر کا بابو ہو یا گاؤں کا کسان، عورت ہو یا مرد چائے کے دو گھونٹ ہی نئی صبح کا آغاز ہیں۔ خدا انھیں سلامت رکھے جنھوں نے ہمیں یہ مشروب فراہم کرایا۔ دودھ دہی کی ندیوں میں بہتا یہ ملک انگریزوں کی بدولت ہری ہری پتیوں سے تیار اس مRead more
صبح سویرے آنکھ کھلتے ہی گرم گرم چائے کی پیالی زندگی کو ایک نئی نوید دیتی ہے۔ شہر کا بابو ہو یا گاؤں کا کسان، عورت ہو یا مرد چائے کے دو گھونٹ ہی نئی صبح کا آغاز ہیں۔ خدا انھیں سلامت رکھے جنھوں نے ہمیں یہ مشروب فراہم کرایا۔
دودھ دہی کی ندیوں میں بہتا یہ ملک انگریزوں کی بدولت ہری ہری پتیوں سے تیار اس مشروب کا غلام بن کر رہ گیا۔ لیکن چائے تو چین کی میراث ہے پھر یہ انگریزوں کے ہاتھ کیسے لگی اور ہندوستان کی سرزمین تک کیسے پہنچی یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔
19 ویں صدی میں انگریزوں نے ہندوستان میں چائے کی بیج ڈالے اور نتیجہ اس قدر زبردست نکلا کہ آج چائے کی پیداوار اور برامدات میں ہندوستان کا صف اول میں شمار ہوتا ہے۔
چین چائے کی پیداوار میں سب سے آگے تھا اور انگریز چین کی اس برتری کو ختم کرنے کے درپے تھے۔ اس کی نظر آسام کے بالائی علاقوں پر جا ٹھہری جہاں کی آب و ہوا چائے کے لیے بے حد مناسب تھی چین سے چائے کو پود کے ساتھ سنگاپور سے چینی نژاد مزدور بلوائے گئے اور زمین کو ہموار کرنے کا کام شروع کردیا گيا۔ یہ مزدور اس کام میں ناکام رہے اور بالآخر زمین کو ہندوستانی مزدوروں نے ہموار کیا اور چائے کی کاشت کا آغاز ہوا۔
انگریزی حکومت نے حصول مقصد کے لیے یہ اعلان کیا کہ جو انگریز چائے کے باغ لگانے میں دلچسپی رکھتا ہے اسے زمین مفت دی جائے گی۔ جلد ہی آسام کا یہ علاقہ چائے کے باغات سے سرسز ہو گيا۔
ان باغات میں کام کرنے والے ہندوستانی مزدور تھے اور ان پر حکومت کرنے والے انگریز بہادر، جن کی زندی عیش و آرام سے بھرپور، بڑے بڑے آرامدہ مکان، نوکر چاکر، گولف کے ٹورنامنٹ، ٹینس کے مقابلے، رقص و سرود کی محفلیں، ہر کوئی متمنی تھا کہ چائے کے باغات کی ذمہ داری اسے مل جائے۔
لیکن انگریزوں کے ہندوستان سے رخصت ہوتے ہی یہ بہار بھی رخصت ہوئی۔ مارواڑی تاجر اب ان کے نئے مالک تھے جنھیں نفع خوری کے علاوہ کسی چیز سے سروکار نہیں تھا۔عیش و عشرت کا دور ختم ہوا اور مزدور اور منیجر کام کی چکی میں پس کر رہ گئے۔
وقت کے ساتھ ہندوستان کی چائے نے چین کی چائے پر فوقیت حاصل کر لی۔ آسام کی چائے کے ساتھ دوسرے مناطق کی چائے بھی اس دوڑ میں شامل ہوتی گئيں اور آج ہندوستان میں بے شمار چائے کمپنیاں ہیں جن میں بروک بونڈ، لپٹن اور تاج محل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ہندوستان میں چائے عموما دو وقت پی جاتی ہے۔ صبح نئے دن کی ابتدا کے ساتھ اور شام کو دن بھر کی تھکن دور کرنے کے لیے۔ دوپہر یا شام کی چائے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔
چائے کی کاشت کے لیے آسام کی سرزمین کو انتہائی معقول پایا گيا
چائے کی کاشت کے لیے آسام کی سرزمین کو انتہائی معقول پایا گيا



See less