کیا لوگوں میں واقعی بلوچ عسکریت پسندوں کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے؟
Share
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Please briefly explain why you feel this question should be reported.
Please briefly explain why you feel this answer should be reported.
Please briefly explain why you feel this user should be reported.
نوابزادہ لشکری رئیسانی کا شمار بلوچستان کے ان سینیئر سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے۔ آئے دن لاشیں گرتی ہیں اور پھر خاموشی سے وہ کھاتا بند ہوجاتا ہے حالانکہ وہ لاشیں اسی سرزمین کے لوگوں کی ہیں۔‘ ان کی رائے ہے کہ چونکہ حکومت انصاف نہیں دے پا رہی اس لیے لوگ حکومتRead more
نوابزادہ لشکری رئیسانی کا شمار بلوچستان کے ان سینیئر سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے۔ آئے دن لاشیں گرتی ہیں اور پھر خاموشی سے وہ کھاتا بند ہوجاتا ہے حالانکہ وہ لاشیں اسی سرزمین کے لوگوں کی ہیں۔‘
ان کی رائے ہے کہ چونکہ حکومت انصاف نہیں دے پا رہی اس لیے لوگ حکومت کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو ’اپنا خیرخواہ اور دوست سمجھیں گے۔‘
’اگر ریاست اپنے عوام کو آئینی و قانونی حقوق اور احترام دے تو پھر شاید حکومت کو ایسا اشتہار دینے کی ضرورت نہ پڑے۔‘
جب بلوچستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے دانشور رفیع اللہ کاکڑ سے اس کی وجوہات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ اشتہار بنیادی طور پر حکومت کی ’گھبراہٹ‘ کو ظاہر کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس گھبراہٹ اور ردعمل کا جواز بھی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بلوچ انسرجنٹس نے بڑی تعداد میں حملے کیے ہیں۔‘
ان کی رائے میں یہ ایک خطرناک صورتحال ہے کہ ’انسرجنٹس کسی علاقے میں آ رہے ہوتے ہیں تو عام لوگ ان کے ساتھ مل رہے ہوتے ہیں اور سیلفیاں بنا رہے ہوتے ہیں۔‘
تاہم ان کو کہنا تھا کہ ’حکومت کی جانب سے اشتہار میں جس ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے، اس کا کوئی جواز نہیں۔ اس ردعمل کی بجائے ان وجوہات کو سمجھنا چاہیے کہ عسکریت پسندوں کے لیے عوام میں ہمدردی کیوں ہے؟ بات یہاں تک کیوں پہنچی؟‘
‘عام لوگوں کو یہ دھمکی دینا کہ ریاست انھیں قانونی یا غیر قانونی طور پر نقصان پہنچا سکتی ہے، میرے خیال میں ایک غلط ردعمل ہے۔’
ان کی رائے ہے کہ عام لوگوں کو ’ڈرانے دھماکے کی بجائے سیاسی اور اقتصادی اسباب پر غور کرنا چاہیے۔‘
مگر پاکستان میں سکیورٹی امور کے ماہر اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں سکیورٹی فورسز کے لیے آپریشن ’مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان ایک دور میں شمالی علاقہ جات میں کرتی رہی ہے اور وہ عام لوگوں کو شیلڈ بناتی رہی ہے۔‘
’جہاں تک کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی بات ہے تو اس کا بلوچستان میں امیج لوگوں کے لیے مختلف ہے اور وہ دہشت گردی والا نہیں ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ لوگوں کو تجسس بھی ہوتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو پہاڑوں پر گئے ہوئے ہیں۔ ’اس تجسس کی وجہ سے بھی لوگ جا کر ان کے ساتھ سیلفیاں بنا رہے ہوتے ہیں۔‘