Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Please briefly explain why you feel this question should be reported.
Please briefly explain why you feel this answer should be reported.
Please briefly explain why you feel this user should be reported.
کیٹی پیری کے سابق منگیتر کا سابق کینیڈین وزیراعظم کیساتھ تعلقات پر ردعمل
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق کیٹی پیری اور جسٹن ٹروڈو کے درمیان تعلقات کی افواہوں کا آغاز اس وقت ہوا جب کیٹی پیری کو اورلینڈو بلوم سے علیحدگی کے کچھ ہی ہفتوں بعد کینیڈا میں جسٹن ٹروڈو کے ہمراہ مختلف مواقع پر دیکھا گیا، جن میں مونٹریال میں ایک ڈنر اور کیٹی کے کنسرٹ میں ٹروڈو کی شرکت شامل ہے۔ اسی دورRead more
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق کیٹی پیری اور جسٹن ٹروڈو کے درمیان تعلقات کی افواہوں کا آغاز اس وقت ہوا جب کیٹی پیری کو اورلینڈو بلوم سے علیحدگی کے کچھ ہی ہفتوں بعد کینیڈا میں جسٹن ٹروڈو کے ہمراہ مختلف مواقع پر دیکھا گیا، جن میں مونٹریال میں ایک ڈنر اور کیٹی کے کنسرٹ میں ٹروڈو کی شرکت شامل ہے۔
اسی دوران ایک غیر ملکی ویب سائٹ “دی انیئن” نے ایک فرضی خبر شائع کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اورلینڈو بلوم اب جرمنی کی سابق چانسلر انجیلا مرکل کو ڈیٹ کر رہے ہیں۔
شائع ہونے والے اس مضمون میں رومانوی شام، سیپیاں، چاکلیٹ کیک اور مرکل کے لطیفوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اے آئی سے تیار کردہ تصویر بھی شامل تھی جس میں دونوں موم بتیوں کی روشنی میں ڈنر کرتے دکھائے گئے۔
بلوم نے اس مذکورہ ویب سائٹ کی اس خبر پر دفاعی ردِ عمل دینے کے بجائے مزاح کا حصہ بنتے ہوئے تبصروں میں صرف تین تالیوں والے ایموجیز پوسٹ کیے۔
واضح رہے کہ بلوم اور پیری نے جولائی میں علیحدگی کی تصدیق کی تھی، جبکہ جسٹن ٹروڈو بھی گزشتہ برس اپنی اہلیہ سے علیحدہ ہو چکے ہیں
See lessپاکستان کرکٹ ٹیم کو حفیظ کاردار یا عمران خان جیسا سخت گیر کپتان ہی کیوں چاہیے؟
عمران خان کی قیادت میں پاکستان کرکٹ دنیا بھر کی مضبوط ترین ٹیموں کے ہم پلّہ آئی
عمران خان کی قیادت میں پاکستان کرکٹ دنیا بھر کی مضبوط ترین ٹیموں کے ہم پلّہ آئی



See lessپاکستان کرکٹ ٹیم کو حفیظ کاردار یا عمران خان جیسا سخت گیر کپتان ہی کیوں چاہیے؟
پاکستان کرکٹ بورڈ کے پہلے صدر جسٹس اے آر کارنیلئیس نے جب پاکستان کی نوزائیدہ کرکٹ ٹیم کی قیادت میاں سعید سے واپس لے کر عبدالحفیظ کاردار کو تھمائی تو اس فیصلے کے کئی دور رس مضمرات تھے جنھیں آنے والے عشروں میں اس کرکٹ کلچر کی سمت طے کرنا تھی۔ دیگر کھیلوں کے برعکس کرکٹ میں کپتان فیلڈ پر اپنے گیارہ کھلاRead more
پاکستان کرکٹ بورڈ کے پہلے صدر جسٹس اے آر کارنیلئیس نے جب پاکستان کی نوزائیدہ کرکٹ ٹیم کی قیادت میاں سعید سے واپس لے کر عبدالحفیظ کاردار کو تھمائی تو اس فیصلے کے کئی دور رس مضمرات تھے جنھیں آنے والے عشروں میں اس کرکٹ کلچر کی سمت طے کرنا تھی۔
دیگر کھیلوں کے برعکس کرکٹ میں کپتان فیلڈ پر اپنے گیارہ کھلاڑیوں کا حتمی انچارج ہوتا ہے اور اپنی سربراہی میں وہ نہ صرف اپنی ٹیم بلکہ پوری قوم کے کرکٹ کلچر کی سمت متعین کرتا ہے۔
کاردار اگرچہ میاں سعید جیسے خام ٹیلنٹ نہیں تھے مگر انھیں لاہور کی گلیوں میں پلے بڑھے میاں سعید پر ثقافتی برتری حاصل تھی کہ وہ آکسفرڈ کے پڑھے ہوئے تھے اور برطانیہ میں بھی کرکٹ کھیل چکے تھے۔
کاردار کی قیادت میں پاکستان وہ ٹیسٹ ٹیم بنی جس نے پاکستان کے دورے پر آئی ایم سی سی (انگلینڈ) کی ٹیم کو شکست دے کر پہلے ٹیسٹ سٹیٹس حاصل کیا اور پھر اپنے دوسرے ہی ٹیسٹ میں انڈیا کے خلاف لکھنؤ میں ایک تاریخی فتح حاصل کر لی۔ کاردار ایک آمرانہ مزاج، نظم و ضبط کے پابند اور ٹریننگ میں زیرو ٹالرینس پالیسی پر کاربند کپتان تھے۔ ان کی سربراہی میں پاکستان کرکٹ کی جو پہلی فصل تیار ہوئی، اس نے انٹرنیشنل سٹیٹس ملنے کی پہلی ہی دہائی میں جنوبی افریقہ کے سوا تمام ٹیسٹ ممالک کے خلاف کم از کم ایک میچ اپنے نام کیا۔ (جنوبی افریقی ٹیم تب صرف سفید فام اقوام کے خلاف کھیلا کرتی تھی۔
پاکستان جیسے متنوع کلچر میں ایسی ٹیم کی قیادت کرنا آسان نہیں جس کی اکثریت عموماً اچھی تعلیم اور عمدہ مالی بیک گراؤنڈ کی حامل نہیں ہوا کرتی۔ جو خام ٹیلنٹ اپنی ناپختگی کی پُرجوش دلیل لے کر اس ڈریسنگ روم میں داخل ہوتا ہے، اسے تراشنا بہرحال کپتان اور کوچ کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔
کاردار کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب پاکستان کی ناکامیوں کا سلسلہ بڑھنے لگا تو بورڈ نے ایک اور کاردار بنانے کا فیصلہ کیا اور ایچیسن کے تعلیم یافتہ جاوید برکی کو کپتان بنایا گیا۔ گو برکی بطور کپتان موثر نہ رہے مگر کچھ مدت بعد بورڈ نے ایک اور کاردار متعارف کروایا جس نے بالآخر پاکستان کو 1992 کا ورلڈ کپ دلوایا
کروڑوں کا کمرشل ٹائم اور اربوں کی سرمایہ کاری: پاکستان اور انڈیا کا میچ براڈکاسٹرز کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟
کیا پاکستان، انڈیا میچ انڈیا کے لیے بھی اہم ہے
کیا پاکستان، انڈیا میچ انڈیا کے لیے بھی اہم ہے





کروڑوں کا کمرشل ٹائم اور اربوں کی سرمایہ کاری: پاکستان اور انڈیا کا میچ براڈکاسٹرز کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟
انڈیا کی جانب سے پاکستان میں آ کر چیمپیئنز ٹرافی کھیلنے سے انکار اور اس کے ردعمل میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اختیار کیے گئے ’سخت مؤقف‘ کے بعد جہاں چیمپیئنز ٹرافی کے انعقاد کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں ایک سوال یہ بھی ہے کہ آیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ منعقد ہو بھی پائے گRead more
انڈیا کی جانب سے پاکستان میں آ کر چیمپیئنز ٹرافی کھیلنے سے انکار اور اس کے ردعمل میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اختیار کیے گئے ’سخت مؤقف‘ کے بعد جہاں چیمپیئنز ٹرافی کے انعقاد کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں ایک سوال یہ بھی ہے کہ آیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ منعقد ہو بھی پائے گا یا نہیں؟
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ سنہ 2011 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں انڈیا سے سیمی فائنل میں شکست کے بعد سے دونوں ٹیموں کے درمیان لگاتار 10 آئی سی سی ٹورنامنٹس میں کم از کم ایک میچ تو ضرور ہوا ہے اور ایسا ہونا محض اتفاق نہیں تھا۔
سنہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان نے انڈیا سے گروپ مرحلے میں شکست کھائی تھی لیکن فائنل میں انڈیا کو ہرا کر ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔ تاہم اس ایونٹ سے پہلے تو پاکستان کی اس میں شرکت پر بھی سوالیہ نشان تھے کیونکہ اس وقت پاکستان آئی سی سی رینکنگز میں پہلی آٹھ ٹیموں میں شامل نہیں تھا۔
اُس وقت کے آئی سی سی چیئرمین ڈیو رچرڈسن نے ایونٹ سے پہلے برطانوی جریدے ’ٹیلی گراف‘ سے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ آئی سی سی اِس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کو ایک ہی گروپ میں رکھا جائے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ (میچ) آئی سی سی کے نقطۂ نظر سے انتہائی اہم ہے۔ یہ دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے اور مداح ابھی سے اس کا انتظار بھی کرنے لگے ہیں۔ یہ ٹورنامنٹ کے لیے بھی بہترین ہے کیونکہ یہ اس کی مقبولیت میں اضافہ کرنے کے لیے اہم ہے
اس معاملے میں کرکٹ براڈکاسٹرز، یعنی میری اور آپ کی ٹی وی اور فون سکرینز پر میچ دکھانے والوں کا ووٹ بھی انتہائی اہم رہا ہے۔
آئی سی سی کی جانب سے جاری اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلے گئے متعدد میچز تاریخ میں سب سے زیادہ دیکھنے جانے والے میچوں میں سے ایک رہے ہیں۔
یہ اعداد و شمار عموماً انڈیا کی مارکیٹ سے لیے جاتے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بھی اس میچ کی ویورشپ بہت زیادہ رہتی ہے اور اس کا کمرشل ایئرٹائم ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں انتہائی قیمتی سمجھا جاتا ہے۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ کیا آئی سی سی کے لیے واقعی اتنے اہم ہیں جتنے پاکستان میں کچھ تجزیہ کاروں کی جانب سے بتائے جا رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے پاکستان اور انڈیا اس کرکٹ براڈکاسٹرز، ایڈورٹائزرز اور اس سے متعلقہ معاملات پر رپورٹ کرنے والوں سے بات کی ہے۔ لیکن اس سب سے پہلے تاریخ کے اُس موڑ پر جاتے ہیں جب کرکٹ چلانے والوں کو آئی سی سی ٹورنامنٹس کی کامیابی کے لیے ایک ارب کی آبادی والے ملک انڈیا کی اہمیت کا صحیح معنوں میں ادراک ہوا تھا
دماغ ماؤف کر دینے والے روایتی ٹاکرے میں پاکستان کے لیے انڈیا کو ہرانا اتنا مشکل کیوں رہا ہے؟
دماغ ماؤف ہے، دل گھبراتا ہے۔۔۔ آج تک اس معمے کو کوئی حل نہیں کر سکا کہ جب بھی پاکستان ٹیم انڈیا سے معمول کا کرکٹ میچ کھیلتی ہے، تو کھلاڑی شیر بن کر لڑتے ہیں
دماغ ماؤف ہے، دل گھبراتا ہے۔۔۔ آج تک اس معمے کو کوئی حل نہیں کر سکا کہ جب بھی پاکستان ٹیم انڈیا سے معمول کا کرکٹ میچ کھیلتی ہے، تو کھلاڑی شیر بن کر لڑتے ہیں



See lessدماغ ماؤف کر دینے والے روایتی ٹاکرے میں پاکستان کے لیے انڈیا کو ہرانا اتنا مشکل کیوں رہا ہے؟
دماغ ماؤف ہے، دل گھبراتا ہے۔۔۔ آج تک اس معمے کو کوئی حل نہیں کر سکا کہ جب بھی پاکستان ٹیم انڈیا سے معمول کا کرکٹ میچ کھیلتی ہے، تو کھلاڑی شیر بن کر لڑتے ہیں مگر جب آئی سی سی کے مقابلے میں دونوں ٹیمیں آمنے سامنے ہوتی ہیں تو ان کھلاڑیوں کو کیا ہو جاتا ہے۔ 'نان ورلڈ کپ فکسچر میں ان سے چھکے بھی لگتے ہیںRead more
دماغ ماؤف ہے، دل گھبراتا ہے۔۔۔ آج تک اس معمے کو کوئی حل نہیں کر سکا کہ جب بھی پاکستان ٹیم انڈیا سے معمول کا کرکٹ میچ کھیلتی ہے، تو کھلاڑی شیر بن کر لڑتے ہیں مگر جب آئی سی سی کے مقابلے میں دونوں ٹیمیں آمنے سامنے ہوتی ہیں تو ان کھلاڑیوں کو کیا ہو جاتا ہے۔
‘نان ورلڈ کپ فکسچر میں ان سے چھکے بھی لگتے ہیں اور یہی وکٹیں بھی اڑاتے ہیں، لیکن ادھر میچ کے ساتھ ‘آئی سی سی’ اور ‘ورلڈکپ’ لگ جائے تو اکثر چھکے بھی چھوٹ جاتے ہیں اور طوطے بھی اڑ جاتے ہیں۔
پچاس اوورز کی محدود کرکٹ میں دونوں ٹیموں کا ایک سو پینتیس بار ٹاکرا ہوا ہے اور پانچ بے نتیجہ میچز کو نکال کر، پاکستان کا پلہ بھاری ہی رہا ہے جس نے ایک سو تیس میں سے تہتر مرتبہ فتح سمیٹی ہے۔
آئی سی سی کے ٹورنامنٹ کے اکیس میچوں میں (بشمول ٹی ٹوئنٹی) یہی ٹیم صرف چار میچ جیت سکی ہے۔ تھوڑا ماضی میں جا کر دیکھیں تو کوئی نہ کوئی سرا مل تو سکتا ہے جہاں سے خرابی کا پتہ چلے بی بی سی اردو کے لیے صحافی محمد صہیب نے ان ‘آئی سی سی’ میچوں کی شکستوں پر سابق ٹیسٹ کپتان اور مایہ ناز وکٹ کیپر، معین خان سے بات کی ہے۔
معین خان 1992 میں پاکستان کی فاتح ٹیم کا حصہ تھے اور 1999 کے عالمی کپ کے بہترین وکٹ کیپر بھی قرار پائے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب دو ٹیمیں کھیلتی ہیں تو ایک ہی جیتتی ہے مگر ایسی ‘مسابقت’ میں جو چیز آپ کے اعصاب کو مجروح کرتی ہے وہ دباؤ ہوتا ہے۔ آئی سی سی ورلڈ کپ کے میچز میں صرف پریشر ہوتا ہے اور کوئی بات نہیں۔’
انھوں نے کہا کہ ‘پاکستان اور انڈیا کا میچ ہمیشہ پریشر والا ہوتا ہے۔ سنہ بانوے کی ٹیم کو لے لیں، اس ٹیم کا ہر پلئیر ایک میچ ونر ہوتا تھا۔’
انھوں نے مزید کہا کہ ‘سڈنی میں انڈیا سے پہلی بار کسی ورلڈ کپ کا میچ کھیل رہے تھے تو دوسو سترہ کے تعاقب میں وکٹیں وقفے وقفے سے گر رہی تھیں اور کہیں بھی ایک بڑی پارٹنرشپ نہیں لگ سکی تھی جس کے باعث ہم وہ میچ ہار گئے۔’
معین خان 1999 کے عالمی کپ میں اپنی زندگی کی بہترین فارم میں تھے، دھواں دھار بیٹنگ میں یا تو جنوبی افریقہ کے لانس کلوزنر کا بلا چنگھاڑ رہا تھا یا معین خان کا۔ جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، انڈیا ہو یا سکاٹ لینڈ، وہ وکٹ کے پیچھے اور آگے بھی بہترین کارکردگی دکھا رہے تھے۔
ایک سو دس کے سٹرائیک ریٹ سے انھوں نے دو سو بیالیس رنز سکور کیے تھے۔ انڈیا کے خلاف میچ میں جب وہ اونچا شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے تو اس وقت پاکستان کو سولہ اوورز میں ایک سو چار رنز درکار تھے۔
معین خان اس میچ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’99 میں مانچسٹر میں بھی ہم ہار گئے تھے، بڑا کلوز میچ ہوا تھا، بڑی کوشش کی تھی ہم نے۔۔ جب میں آؤٹ ہوا تھا اس وقت ہم میچ جیت رہے تھے۔ آپ غلطی کہہ لیں اس کو یا اپنے مخالف کی اچھی کارکردگی لیکن ہمارے دماغ میں یہی تھا کہ کسی طرح پاکستان کو جتانا ہے اور یہ جو ایک مارک لگا ہوا تھا پاکستان ٹیم کے اوپر کہ ہم آئی سی سی کے میچز میں ہار جاتے ہیں، وہ ہٹانا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کون ہیں اور ان کا خاندان کتنا بااثر ہے؟
آیت اللہ خامنہ ای ایران کے سب کے طاقتور شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں
آیت اللہ خامنہ ای ایران کے سب کے طاقتور شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں




See lessایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کون ہیں اور ان کا خاندان کتنا بااثر ہے؟
امریکی میڈیا کے مطابق حالیہ ایران اسرائیل تنازع کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کا ایک اسرائیلی منصوبہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ کوئی ’اچھا خیال نہیں ہے۔‘ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے ایران پر حالیہ حملوں کا مقصد ایران کی جوہری صلاحیتوں سے اRead more
امریکی میڈیا کے مطابق حالیہ ایران اسرائیل تنازع کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کا ایک اسرائیلی منصوبہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ کوئی ’اچھا خیال نہیں ہے۔‘
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے ایران پر حالیہ حملوں کا مقصد ایران کی جوہری صلاحیتوں سے اسرائیل کی سلامتی کو لاحق خطرات کو دور کرنا ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کہتے ہیں کہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تہران میں برسرِ اقتدار رجیم تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے قبل انھوں نے ایرانی عوام سے اپیل کی تھی وہ اپنے لیڈروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
اس تناظر میں ہم دیکھیں گے کہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ کون ہیں اور ان کے پاس کتنی طاقت ہے۔ اس کے علاوہ، آیت اللہ خامنہ ای کے خاندان کا ایران کی سیاست میں کیا کردار ہے۔ آیت اللہ علی خامنہ ای 1979 کے انقلاب کے بعد ایران کے رہبرِ اعلیٰ بننے والے دوسرے شخص ہیں۔ وہ 1989 سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ بہت سے نوجوان ایرانیوں نے ہمیشہ سے انھیں ہی اس کردار میں دیکھا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای 1939 میں ایران کے دوسرے سب سے بڑے شہر مشہد کے ایک مذہبی خاندان میں ہیدا ہوئے۔ وہ اپنے بھائی بہنوں میں دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کے والد ایک درمیانے درجے کے شیعہ عالم تھے۔
انھوں نے بچپن میں مذہبی تعلیم حاصل کی اور 11 برس کی عمر میں وہ ایک عالم کے طور پر اہل ہو گئے تھے۔
اپنے دور کے دیگر عالموں کی طرح، ان کے کام کی نوعیت مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی بھی تھی۔
بطور ایک بااثر خطیب، وہ شاہِ ایران کے نقادوں میں شامل ہو گئے۔ بالآخر 1979 کے اسلامی انقلاب کے نتیجے میں ایران کے شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا۔
خامنہ ای کئی برسوں تک روپوش رہے اور انھیں جیل بھی کاٹنی پڑی۔ شاہِ ایران کی خفیہ پولیس نے انھیں چھ مرتبہ گرفتار کیا اور انھیں تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
1979 کے انقلاب کے ایک سال بعد، آیت اللہ روح اللہ خمینی نے انھیں تہران میں جمعے کی نماز کا امام مقرر کر دیا۔
1981 میں خامنہ ای صدر منتخب ہوئے جبکہ 1989 روح اللہ خمینی کی وفات کے بعد مذہبی رہنماؤں نے انھیں آیت اللہ خمینی کا جانشین مقرر کر دیا
ایران اسرائیل تنازعے میں امریکی صدر ٹرمپ کیا اقدامات اٹھا سکتے ہیں؟
جیسا کہ دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے ویسے ہی ٹرمپ پر کانگرس میں موجود شاطر ریپبلکنز کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے
جیسا کہ دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے ویسے ہی ٹرمپ پر کانگرس میں موجود شاطر ریپبلکنز کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے



See less