Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Please briefly explain why you feel this question should be reported.
Please briefly explain why you feel this answer should be reported.
Please briefly explain why you feel this user should be reported.
ایران اسرائیل تنازعے میں امریکی صدر ٹرمپ کیا اقدامات اٹھا سکتے ہیں؟
امریکی صدر ٹرمپ ایران اسرائیل تنازعے میں ایک بار پھر اپنے موقف میں تبدیلی لاتے دکھائی دے رہے ہیں، پہلے انھوں نے اسرائیل کے ایران پر حملوں کی مکمل حمایت کی اور اب وہ تیزی سے ان تبصروں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اس اہم تنازعے پر بڑھتی کشیدگی میں ان کے ابہام نے غیر یقینی کی فضا کو مزید بڑھایا ہے۔ اس سب کے دوRead more
امریکی صدر ٹرمپ ایران اسرائیل تنازعے میں ایک بار پھر اپنے موقف میں تبدیلی لاتے دکھائی دے رہے ہیں، پہلے انھوں نے اسرائیل کے ایران پر حملوں کی مکمل حمایت کی اور اب وہ تیزی سے ان تبصروں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
اس اہم تنازعے پر بڑھتی کشیدگی میں ان کے ابہام نے غیر یقینی کی فضا کو مزید بڑھایا ہے۔ اس سب کے دوران وہ کینیڈا میں منقعدہ جی سیون ممالک کے اجلاس سے بھی اٹھ کر چلے گئے اور انھوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن واپس جانے کے لیے ان کے پاس ‘اہم وجہ’ ہے۔
وائٹ ہاؤس نے ان کے جی سیون ممالک کے اجلاس سے چلے جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ‘مشرق وسطی کی صورتحال’ اس کی وجہ ہے جبکہ بعدازاں انھوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ‘اس کا سیز فائر سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔’
اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ایران پر حملے امریکہ کی ’مکمل مشاورت‘ سے کیے گئے ہیں
نتین یاہو کے دباؤ کے آگے جھک جائیں اور کشیدگی کو مزید بڑھائیں
جمعرات کو تہران پر اسرائیلی میزائل حملوں کے بعد ٹرمپ نے ایران کے رہنماوں کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان کے اسرائیلی اتحادی کی جانب سے امریکی ببموں سے لیس ‘مزید خطرناک حملوں’ کے لیے تیار رہیں۔
ہمیں ٹرمپ کے بنیادی مقصد کے متعلق علم ہے۔ نیتن یاہو کی طرح انھوں نے کہا ہے کہ ایران ایٹمی بم کی صلاحیت نہیں رکھ سکتا۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے نتین یاہو کے برعکس ایران کی جوہری صلاحیت ختم کرنے کے لیے امریکہ اور ایران کے درمیان ایک معاہدے کرنا کا کہا ہے۔ ( یہ اقدام ان کے خود ساختہ بیان کردہ عالمی سطح کے ثالث کا عکاس ہے۔)
لیکن انھوں نے اس بارے میں بہت شور مچایا ہے کہ وہ اس معاہدے تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ کبھی انھوں نے ایران پر طاقت کا استعمال کرنے کی بات کی تو کبھی سفارتکاری پر زور دیا۔ گذشتہ ہفتے انھوں نے یہاں تک کہا کہ ایران پر اسرائیلی حملے یا تو معاہدے میں مددگار ہوں گے یا پھر اسے ‘ختم کر دیں گے۔’
ڈونلڈ ٹرمپ کا ناقابلِ پیشن گوئی رویہ اکثر ان کے حامیوں میں بھی نظر آتا ہے جو کہ ایک سٹریٹیجک حقیقت ہے اور خارجہ امور کی نام نہاد ‘میڈ مین’ تھیوری سے مطابقت رکھتا ہے۔
یہ نظریہ وہ ہے جو پہلے ٹرمپ کے مذاکراتی حربوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے اور یہ تجویز کرتا ہے کہ جان بوجھ کر غیر یقینی یا غیر متوقع طور پر تنازعات میں کشیدگی مخالفوں (یا حتیٰ کہ ٹرمپ کے معاملے میں اتحادیوں) کو تعمیل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ طریقہ صدر رچرڈ نکسن کے سرد جنگ کے کچھ طریقوں سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔
صدام حسین کا کویت پر حملہ اور چار دن کی ’انقلابی جمہوریہ‘ کی کہانی
صدام حسین نے اگست 1990 میں کویت پر حملے کا حکم دیا
صدام حسین نے اگست 1990 میں کویت پر حملے کا حکم دیا





See lessصدام حسین کا کویت پر حملہ اور چار دن کی ’انقلابی جمہوریہ‘ کی کہانی
اگست 1990 کو عراقی افواج نے اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین کے حکم پر کویت پر حملہ کر دیا، جس سے مشرق وسطی میں اس بحران کا آغاز ہوا، جس کے بعد دوسری خلیجی جنگ کی راہ ہموار ہوئی۔ عراق کا حملہ اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ عراق اور کویت کے درمیان اس بحران کے پیچھے چند سیاسی اور اقتصادی عوامل چھپے تھے۔ 1988 میRead more
اگست 1990 کو عراقی افواج نے اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین کے حکم پر کویت پر حملہ کر دیا، جس سے مشرق وسطی میں اس بحران کا آغاز ہوا، جس کے بعد دوسری خلیجی جنگ کی راہ ہموار ہوئی۔
عراق کا حملہ اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ عراق اور کویت کے درمیان اس بحران کے پیچھے چند سیاسی اور اقتصادی عوامل چھپے تھے۔
1988 میں ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد عراق قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا، خاص طور پر ان خلیجی ریاستوں کے قرضوں میں جنھوں نے جنگ کے دوران اس کی مالی مدد کی تھی۔ ان ممالک میں کویت اور سعودی عرب سرفہرست تھے۔
پھر کویت نے عراق سے اپنے قرضوں کی ادائیگی کا مطالبہ کر دیا۔ تاہم بحران ان عراقی الزامات کی وجہ سے مزید بڑھ گیا کہ کویت نے اپنے اوپیک (آرگنائزیشن آف دی پیٹرولیم ایکسپورٹ ممالک) کے تیل کے کوٹے سے تجاوز کیا جس سے بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے عراق کی آمدنی بھی کمی ہوئی
عراق نے کویت پر مشترکہ رومیلا تیل فیلڈ سے تیل چوری کرنے کا الزام بھی لگایا۔ اس کشیدہ ماحول کے درمیان صدام حسین نے کویت پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
دو اگست سنہ 1990 کی صبح تقریباً ایک لاکھ عراقی فوجی ٹینکوں، ہیلی کاپٹروں اور ٹرکوں کے ساتھ کویت کی سرحد میں داخل ہوئے۔
اس وقت عراق کی فوج دنیا کی چوتھی سب سے بڑی فوج تھی۔
محض ایک گھنٹے میں ہی وہ کویت سٹی پہنچ گئے اور دوپہر تک عراقی ٹینکوں نے کویت کے شاہی محل دسمان محل کو محاصرے میں لے لیا۔
اس وقت تک کویت کے امیر سعودی عرب فرار ہو چکے تھے۔ انھوں نے اپنے سوتیلے بھائی شیخ فہد الاحمد الصباح کو اپنی جگہ چھوڑا تھا۔ عراقی فوج نے شیخ کو دیکھتے ہی گولی مار دی۔
ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد علی حسن الماجد (صدام کے کزن) کو کویت کا فوجی گورنر مقرر کیا گیا۔
عراقی حکام نے کویت میں اپنی موجودگی کو جواز دینے کے لیے تیزی سے اقدامات کرنا شروع کر دیے۔ ایسا ہی ایک قدم ایک نئے سیاسی وجود کا قیام تھا جسے جمہوریہ کویت کا نام دیا گیا۔
ملک پر قبضہ کرنے کے دو دن بعد، 4 اگست 1990 کو، صدام حسین نے جمہوریہ کویت کے قیام کا اعلان کیا۔ راجہ حسن مناوی کی کتاب ’کویت: حملہ اور آزادی‘ کے مطابق صدام حسین نے اعلان کیا کہ یہ نئی جمہوریہ ’آزاد اور مقبول انقلاب کے زیر انتظام ہے۔‘
تجزیہ کاروں اور تاریخ دانوں کے مطابق یہ اعلان صدام حسین کی وقت خریدنے کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔
پہلے دن سے فوری الحاق کا اعلان کرنے کے بجائے، عراقی حکومت نے صورت حال کو کویت میں ایک اندرونی انقلاب کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی یعنی ان کے مطابق خود کویتیوں نے اپنی ہی حکومت کے خلاف انقلاب برپا کیا۔
اس وقت عراقی میڈیا نے حملے کا جواز فراہم کرنے کے لیے اسی بیانیے کا استعمال کیا۔ جمہوریہ کویت کی حکومت میں نو ایسے سابق کویتی افسران شامل تھے جنھوں نے عراقی حکومت کے ساتھ تعاون کیا تھا، یا بعد میں انھیں عراق سے تعاون کرنے والا قرار دیا گیا۔
کرنل علاء حسین علی الخفاجی الجابر کو وزیر اعظم اور مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف مقرر کیا گیا، وہ وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل ولید سعود محمد عبداللہ کو خارجہ امور کا وزیر، لیفٹیننٹ کرنل فواد حسین احمد کو وزیر خزانہ، میجر فاضل حیدر الوفیقی کو اطلاعات اور ٹرانسپورٹ کا وزیر اور لیفٹیننٹ کرنل حسین دہیمان الشمری کو سماجی امور کا وزیر مقرر کیا گیا۔
نیتن یاہو کے ساتھ حکومت بنانے والا اتحادی گروپ ’مذہبی صیہونیت‘ کیا ہے؟
اوتمسا یہودیت کے رہنما اتامر بن گویراپنی اشتعال انگیزی کے لیے جانے جاتے ہیں
اوتمسا یہودیت کے رہنما اتامر بن گویراپنی اشتعال انگیزی کے لیے جانے جاتے ہیں



See lessنیتن یاہو کے ساتھ حکومت بنانے والا اتحادی گروپ ’مذہبی صیہونیت‘ کیا ہے؟
ان کے پیروکاروں کا نعرہ ہوتا تھا ’عرب مردہ باد‘۔ اب جبکہ اوتمسا یہودیت جماعت اسرائیل کی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے۔ اس کے سب سے مقبول رہنما اتامر بن گویر خود کو ایک مرکزی دھارے کے سیاستدان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کے حامی ریلیوں میں ’دہشت گردوں کے لیے موت‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ ان کی پاRead more
ان کے پیروکاروں کا نعرہ ہوتا تھا ’عرب مردہ باد‘۔
اب جبکہ اوتمسا یہودیت جماعت اسرائیل کی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے۔ اس کے سب سے مقبول رہنما اتامر بن گویر خود کو ایک مرکزی دھارے کے سیاستدان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کے حامی ریلیوں میں ’دہشت گردوں کے لیے موت‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔
ان کی پارٹی ’مذہبی صیہونیت‘ نامی نظریاتی اتحاد کا حصہ ہے۔ اس اتحاد میں شامل انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو ان انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی ہے اور نیتن یاہو نے ان انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ حکومتی اتحاد بنانے کا اعلان کیا ہے۔ انتہائی دائیں بازو، یہودی بالادستی اور عرب مخالف نظریاتی اتحاد ’مذہبی صیہونیت‘ کی اسرائیلی انتخابات میں بے مثال کامیابی نے وہ حاصل کر لیا ہے جو ایک سال پہلے ناممکن نظر آتا تھا اور وہ ہے نیتن یاہو کی بطور وزیر اعظم واپسی۔ وہ چھٹی بار اسرائیل کے وزیر اعظم ہوں گے۔
بُدھ کو 73 برس کے سیاست دان نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ انھیں نئی حکومت بنانے کے لیے کنیسٹ (پارلیمنٹ) میں کافی حمایت حاصل ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’گذشتہ انتخابات میں ہمیں ملنے والی زبردست عوامی حمایت کی بدولت میں ایک ایسی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا جو تمام اسرائیلی شہریوں کے فائدے کے لیے کام کرے گی۔‘
سات دہائیوں میں پہلی بار ملک پر انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد حکومت کرے گا۔
مذہبی صیہونیت اور دیگر الٹرا آرتھوڈوکس گروہوں کی بدولت، نیتن یاہو نے پارلمینٹ میں حکومتی اتحاد بنایا ہے۔
تاہم اس حکومت کا استحکام ایک کھلے عام نسل پرست اور انتہائی قوم پرست اتحاد پر منحصر ہو گا، جس کے سب سے مقبول رہنما ایک ایسی شخصیت ہیں، جنھوں نے برسوں تک اپنے کمرے میں ایک ایسے یہودی بنیاد پرست کی تصویر لٹکائے رکھی جس نے الخلیل میں قتل عام کروایا تھا۔
’مذہبی صیہونیت‘ نامی نظریاتی تحریک میں شامل جماعتیں (اوتمسا یہودیت، نوم اور مذہبی زیونیسٹ پارٹی) اسرائیل کی سیاست میں اب تک زیادہ کامیاب نہیں تھیں۔
روایتی دائیں بازو کے حلقوں نے بھی ان کی بنیاد پرستی اور عرب مخالف بیان بازی کی وجہ سے ان سے منہ موڑ لیا تھا۔
نیتن یاہو کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے ان کی جماعت لیکود کے ساتھ اتحاد نے سماجی طور پر ان کی پوزیشن کو بحال کر دیا ہے، یہاں تک کہ وہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اپنی موجودگی کو 6 سے 14 نشستوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اگرچہ سرکاری طور پر اس اتحاد میں دوسرے نمبر کی جماعت کے اہم رکن ایتامر بین گویر ہیں، جو اس اتحاد کے لیے ووٹ حاصل کرنے میں انتہائی اہم رہے ہیں۔
اوتمسا یہودیت نامی جماعت کے یہ رہنما، جن کی ماضی میں نسل پرستی اور نفرت کے لیے اکسانے پر مذمت کی گئی، مغربی کنارے میں ایک یہودی بستی میں رہائش پذیر ہیں اور اپنی اشتعال انگیزی کے لیے جانے جاتے ہیں۔
ان کے سخت گیر خیالات کی وجہ سے فوج نے انھیں لازمی فوجی سروس سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔
گذشتہ اکتوبر میں وہ اس وقت خبروں میں آئے جب مشرقی یروشلم کے علاقے شیخ جراح میں ان پر پتھر برسائے گئے اور انھوں نے پستول نکال لی۔ بین گویر نے پولیس کو کہا کہ وہ اس واقعے کے ذمہ داران کو گولیاں مار دیں۔
46 برس کے انتہائی سخت گیر سیاست دان جو نئی حکومت میں وزارت داخلہ سنبھالیں گے، انتہائی قوم پرست رابی میئر کہانے کے پیروکار رہے ہیں۔
بین گویر، میئر کہانے کی جماعت کاچ کے رکن رہے ہیں، جس پر انسداد دہشتگردی قوانین کے تحت 1994 میں پابندی لگا دی گئی تھی۔
مسجد اقصیٰ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے اہم کیوں؟
مسجد اقصیٰ اور اس کے پس منظر پر تنازع
مسجد اقصیٰ اور اس کے پس منظر پر تنازع
مسجد اقصیٰ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے اہم کیوں؟
اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی حلف برداری کے ایک ہفتے کے اندر ہی ملک کے قومی سلامتی کے وزیر اور انتہائی دائیں بازو کے رہنما ایتامر بین گویر کا مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ کے احاطے کا دورہ بہت زیادہ تنازعے کا شکار ہو گیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے اسے ’بے مثال اشتعال انگیزی‘Read more
اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی حلف برداری کے ایک ہفتے کے اندر ہی ملک کے قومی سلامتی کے وزیر اور انتہائی دائیں بازو کے رہنما ایتامر بین گویر کا مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ کے احاطے کا دورہ بہت زیادہ تنازعے کا شکار ہو گیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے اسے ’بے مثال اشتعال انگیزی‘ قرار دیا ہے۔
یروشلم تینوں مذاہب اسلام، یہودیت اور مسیحیت کے پیروکاروں کے لیے مقدس مقام ہے۔ مسجد اقصیٰ کو مکہ کی مسجد الحرام اور مدینہ کی مسجد نبوی کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔
یہودی مسجد کے احاطے میں داخل ہو سکتے ہیں لیکن انھیں وہاں عبادت کرنے کی اجازت نہیں۔
ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ آیا ایتامر بین گویر نے وہاں عبادت کی یا نہیں لیکن فلسطینی اسے مسجد اقصیٰ کی موجودہ حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ آخر اسرائیلی وزیر کا مسجد اقصیٰ کے احاطے میں جانا اتنا متنازع کیوں بن گیا اور مسجد اقصیٰ اتنی اہم کیوں ہے کہ اسرائیلی وزیر کے وہاں جانے کے بعد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر کئی مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ چین نے بھی شدید اعتراض کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے
درحقیقت مشرقی یروشلم میں واقع مسجد اقصیٰ یہودیوں کے لیے مقدس ترین مقام ہے اور اسے اسلام میں تیسرا مقدس ترین مقام بھی سمجھا جاتا ہے۔
مقدس مقام، جسے یہودیوں کے لیے ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ اور مسلمانوں کے لیے ’الحرم الشریف‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں ’مسجد اقصیٰ‘ اور ’ڈوم آف دی راک‘ شامل ہیں۔
’ڈوم آف دی راک‘ کو یہودیت میں مقدس ترین مقام کا درجہ دیا گیا ہے اور مسلمان بھی پیغمبر اسلام محمد کی نسبت سے اسے مقدس مقام مانتے ہیں۔
اس مذہبی مقام پر غیر مسلموں کے عبادت کرنے پر پابندی ہے۔
مسجد اقصیٰ گول گنبد والی مسجد کا نام ہے جو 35 ایکڑ کے احاطے میں موجود ہے۔ مسلمان اسے الحرم الشریف بھی کہتے ہیں۔ یہودی اسے ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں۔
یہ کمپلیکس یروشلم کے پرانے علاقے میں ہے جسے یونیسکو سے عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ مل چکا ہے
یہ علاقہ سنہ 1967 میں غربِ اردن، غزہ کی پٹی اور اولڈ سٹی سمیت مشرقی یروشلم کے اسرائیل کے الحاق کے بعد سے متنازع ہے تاہم اس حوالے سے تنازع اسرائیل کے وجود سے پہلے سے جاری ہے۔ 1947 میں اقوام متحدہ نے ایک علیحدہ فلسطینی علاقے کے لیے تقسیم کا منصوبہ بنایا۔ اس وقت فلسطین برطانیہ کے قبضے میں تھا۔
اس منصوبے کے مطابق دو ممالک بنائے جانے تھے، ایک یورپ سے آنے والے یہودیوں کے لیے اور دوسرا فلسطینیوں کے لیے۔ یہودیوں کو 55 فیصد زمین اور باقی 45 فیصد زمین فلسطینیوں کو دی گئی۔ 1948 میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سمیت 72 فیصد زمین پر قبضہ کر لیا اور خود کو ایک آزاد ملک قرار دیا۔
دراصل 1967 میں دوسری عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے مشرقی یروشلم شہر پر قبضہ کر لیا اور اس طرح شہر کے پرانے علاقے میں واقع الاقصیٰ کمپلیکس بھی اس کے قبضے میں آ گیا۔
اسرائیل نے اسے اردن سے چھین لیا تھا لیکن مقدس مقامات کے کنٹرول کے تنازع کے بعد جمود کو برقرار رکھنے کے لیے ایک نظام بنایا گیا۔
اس انتظام کے تحت اردن کو اس جگہ کا نگہبان بنایا گیا تھا جبکہ اسرائیل کو سکیورٹی کے نظام کو سنبھالنے کی ذمہ داری ملی تھی لیکن یہاں صرف مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت تھی۔
یہودی یہاں آ سکتے تھے لیکن انھیں عبادت کرنے سے منع کیا گیا تھا۔
مسجدِ اقصٰی کے احاطے میں اسرائیلی وزیر کی عبادت: مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے اہم مسجد اتنی متنازع کیوں ہے؟
معاہدہ یہودیوں کو صرف اس مقام کی زیارت کی اجازت دیتا ہے، عبادت کی نہیں
معاہدہ یہودیوں کو صرف اس مقام کی زیارت کی اجازت دیتا ہے، عبادت کی نہیں
مسجدِ اقصٰی کے احاطے میں اسرائیلی وزیر کی عبادت: مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے اہم مسجد اتنی متنازع کیوں ہے؟
اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اور انتہائی دائیں بازو کے رہنما ایتامر بین گویر نے اتوار کو مشرق وسطیٰ کے سب سے حساس مقامات میں شامل مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ کا نہ صرف دورہ کیا بلکہ اس دوران وہ دہائیوں پرانے معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔ ان کے دورے کی تصاویر اور ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہRead more
اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اور انتہائی دائیں بازو کے رہنما ایتامر بین گویر نے اتوار کو مشرق وسطیٰ کے سب سے حساس مقامات میں شامل مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ کا نہ صرف دورہ کیا بلکہ اس دوران وہ دہائیوں پرانے معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔
ان کے دورے کی تصاویر اور ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ بین گویر یہودی عبادات کرتے ہوئے مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں موجود ہیں۔ اس احاطے کو یہودی ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کے نام سے جانتے ہیں اور یہ علاقہ مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں واقع ہے۔
یاد رہے کہ اس مقام پرعبادت کرنا ایک طویل عرصے سے قائم اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جو یہودیوں کو صرف اس مقام کی زیارت کی اجازت دیتا ہے، عبادت کی نہیں۔ اردن نے، جو اس مقام کا نگران ہے، بن گویر کے حالیہ دورے کو ’ناقابلِ قبول اشتعال انگیزی‘ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیرِاعظم کے دفتر سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیل کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ اس معاہدے پر قائم ہے جس کے تحت صرف مسلمانوں کو اس مقام پر عبادت کی اجازت ہے۔ ایتامر بین گویر کے ٹیمپل ماؤنٹ میں عبادت کے ویڈیو کلپس کو حماس نے ’فلسطینی قوم کے خلاف جاری جارحیت کی سنگینی میں اضافہ‘ قرار دیا، جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ترجمان نے کہا کہ ’یہ دورہ تمام سرخ لکیریں (حدیں) پار کر گیا ہے۔‘
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب ایتامر نے اس مقام کا دورہ کیا ہو۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو کی حلف برداری کے ایک ہفتے کے اندر ہی ایتامر بین گویر نے مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسجد اقصیٰ کے احاطے کا دورہ کیا تھا۔
تاہم ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ جب انھوں نے کھلے عام وہاں عبادت کی ہے
ئمسینئر وکیل کو فائرنگ کرکے قتل کرنیوالے ملزم کی شناخت ہو گئی، حملہ آور نے بھاگتے ہوئے کیا کہا؟
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں سینئر وکیل خواجہ شمس الاسلام کو فائرنگ کر کے قتل کرنے والے ملزم کی شناخت ہو گئی اور حملہ آور نے فرار ہوتے ہوئے ایک جملہ بھی ادا کیا۔ درخشاں تھانے کی حدود ڈیفنس فیز 6 قرآن اکیڈمی میں نماز جمعہ کے بعد ایک شخص نے مسجد میں گھس کر فائرنگ کی اور فرار ہو گیا، فائرنگ کے نتیجRead more
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں سینئر وکیل خواجہ شمس الاسلام کو فائرنگ کر کے قتل کرنے والے ملزم کی شناخت ہو گئی اور حملہ آور نے فرار ہوتے ہوئے ایک جملہ بھی ادا کیا۔
درخشاں تھانے کی حدود ڈیفنس فیز 6 قرآن اکیڈمی میں نماز جمعہ کے بعد ایک شخص نے مسجد میں گھس کر فائرنگ کی اور فرار ہو گیا، فائرنگ کے نتیجے میں سینئر وکیل خواجہ شمس السلام اور ان کا بیٹا زخمی ہو گئے، فائرنگ سے زخمی ہونے والے باپ بیٹے کو نجی اسپتال منتقل کیا جہاں دوران علاج 55 سالہ خواجہ شمس السلام چل بسے جبکہ ان کے بیٹے 25 سالہ خواجہ دانیال کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔
پولیس کے مطابق خواجہ شمس الاسلام بیٹے کے ساتھ ڈی ایچ اے فیز 6 میں ایک جنازے میں شرکت کیلئے آئے تھے کہ قمیض شلوار میں ملبوس ملزم نے ان پر فائرنگ کی اور موٹر سائیکل پر فرار ہو گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق ملزم نے چہرے پر ماسک لگا رکھا تھا جبکہ ایس ایس پی ساؤتھ مہظور علی نے بتایا کہ خواجہ شمس الاسلام نے نماز جمعہ اور اس کے بعد نماز جنازہ پڑھی، نماز کی ادائیگی کے بعد وہ سیڑھیوں کے قریب جوتے پہن کر جیسے ہی کھڑے ہوئے تو مسلح ملزم مسجد میں داخل ہوا اور بھاگتے ہوئے ان پر فائرنگ کر دی، خواجہ شمس الاسلام کو سینے میں دو گولیاں لگیں جبکہ ایک گولی ان کے بیٹے کو بھی لگی
پولیس کا کہنا ہے کہ خواجہ شمس الاسلام کو قتل کرنے والے ملزم کی شناخت کرلی گئی ہے۔ خواجہ شمس الاسلام کا قاتل سابق گن مین کا بیٹا عمران آفریدی ہے جس نے چند ماہ پہلے بھی خواجہ شمس الاسلام پر حملہ کیا تھا۔
مہظور علی نے بتایا کہ نبی گل نامی ریٹائرڈ ہیڈ کانسٹیبل خواجہ شمس الاسلام کے ساتھ بطور گن مین چلتا تھا، 2021 میں نبی گل کو کسی نے قتل کر کے لاش ٹھٹھہ کے قریب پھینک دی تھی جس پر نبی گل کے بیٹوں نے الزام عائد کیا کہ ان کے باپ کے قتل میں خواجہ شمس الاسلام ملوث ہیں۔
ایس ایس پی ساؤتھ نے بتایا کہ 2024 میں کلفٹن میں نبی گل کے بیٹوں اور بھائی نے خواجہ شمس الاسلام پر حملہ کیا تھا جس میں وہ زخمی ہوئے تھے، واقعے میں نبی گل کا بھائی بہار گل اور اس کا بیٹا عبداللہ اور ایک سہولت کار سرفراز گرفتار ہو کر جیل گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ مذکورہ واقعہ بھی اسی کی کڑی ہے، جمعہ کو نبی گل کے بیٹے عمران نے فائرنگ کی اور بھاگتے ہوئے کہا کہ “میں نے اپنے باپ کا بدلہ لے لیا”۔
واقعے کے بعد سے عمران سمیت نبی گل کے پانچوں بیٹے اور نبی گل کے بھائی بہار گل کے بیٹے غائب ہیں، نبی گل کا ایک اور بھائی تقدیر گل معطل پولیس اہلکار ہے اور پولیس لائنز کلفٹن میں رہائش پذیر ہے۔
مہظور علی نے بتایا کہ ملزم عمران کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کی مختلف ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں جبکہ عمران کے دو رشتہ داروں کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔
خواجہ شمس الاسلام اور ان کے بیٹے پر فائرنگ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آئی ہے۔
فوٹیج میں نیلے رنگ کی قمیض شلوار میں ملبوس ماسک پہنے شخص کو فائرنگ کرتے دیکھا جا سکتا ہے، حملہ آور نے نیلے رنگ کی واسکٹ بھی زیب تن کر رکھی تھی۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر واقعہ ذاتی رنجش پر ٹارگٹ معلوم ہوتا ہے
See less