جیسے جیسے انسان کی عمر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اس کی جسمانی صلاحیتوں میں بھی کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ خاص طور پر 40 سے 50 سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے اور عمر کے اس حصے میں ہمارے جسم کے مختلف اعضا میں بگاڑ آنا شروع ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اِس عمر میں ہمارے پٹھوں کا حجم کم ہو جاتا ہے، بینائی کمRead more
جیسے جیسے انسان کی عمر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اس کی جسمانی صلاحیتوں میں بھی کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ خاص طور پر 40 سے 50 سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے اور عمر کے اس حصے میں ہمارے جسم کے مختلف اعضا میں بگاڑ آنا شروع ہو جاتا ہے۔
مثال کے طور پر اِس عمر میں ہمارے پٹھوں کا حجم کم ہو جاتا ہے، بینائی کم ہو جاتی ہے اور جوڑوں میں خرابی آنا شروع ہو جاتی ہے۔
لیکن دماغ کے لیے یہ عمل تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔
بگاڑ کے بجائے کہا جا سکتا ہے کہ عمر کے اس حصے میں ہمارے دماغ کے اندر کی ’وائرنگ‘ دوبارہ ہوتی ہے یہ کہنا ہے کہ آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی سے منسلک محققین کی ایک ٹیم کا جنھوں نے انسانی جسم اور دماغ پر بڑھتی ہوئی عمر کے باعث پڑنے والے اثرات ہر ہونے والے 150 مطالعات کا جائزہ لیا ہے۔
موناش یونیورسٹی کی نیوروسائنٹسٹ شرنا جمادار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرچہ دماغ انسانی جسم کا صرف 2 فیصد ہے، لیکن یہ ہمارے جسم میں داخل ہونے والی گلوکوز کا 20 فیصد حصہ اپنے اندر جذب کرتا ہے۔ لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ گلوکوز کو جذب کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔‘
وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’دماغ اپنے نظام کی ایک طرح سے ری-انجینیئرنگ کرتا ہے تاکہ جن اجزا کو وہ جذب کر رہا ہے اس کا بہترین استعمال ہو۔‘
سائنسدانوں کے مطابق یہ عمل انقلابی ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں آنے والے سالوں میں نیورانز کا نظام جسم کے ساتھ مزید ہم اہنگ ہوتا ہے جس سے ذہنی سرگرمیوں پر اثر پڑتا ہے
آپ انٹرنیٹ پر کسی آن لائن سٹور پر ہیں اور آپ کا کچھ خریدنےکا دل کر رہا ہے۔ اور وہ چیز آپ کے بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم کے حساب سے کچھ مہنگی ہے لیکن اس وقت وہ آپ کے لیے دنیا کی سب سے اہم چیز بن چکی ہے۔ اور آپ سوچتے ہیں کہ اگر اس کی قیمت بڑھ گئی اور آپ اسے خریدنے کا موقع گنوا بیٹھے تو کیا ہوگا۔ یا یہ کRead more
آپ انٹرنیٹ پر کسی آن لائن سٹور پر ہیں اور آپ کا کچھ خریدنےکا دل کر رہا ہے۔ اور وہ چیز آپ کے بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم کے حساب سے کچھ مہنگی ہے لیکن اس وقت وہ آپ کے لیے دنیا کی سب سے اہم چیز بن چکی ہے۔
اور آپ سوچتے ہیں کہ اگر اس کی قیمت بڑھ گئی اور آپ اسے خریدنے کا موقع گنوا بیٹھے تو کیا ہوگا۔ یا یہ کہ یہ ختم ہو گئی تو کیا ہو گا؟
اس جذباتی کیفیت میں آپ اپنے دماغ میں حساب کتاب لگاتے ہیں اور اسے خریدنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو اپنے بینک کارڈ کے نمبر کا انداراج بھی نہیں کرنا کیونکہ وہ آپ کے کمپیوٹر براؤزر میں پہلے سے ہی محفوظ ہے۔
بس آپ نے بٹن دبانا ہے۔ مگر اس کے کچھ دنوں بعد پچھتاوا شروع ہو جاتا ہے یا اس سے بھی برا یہ کہ آپ قرض میں چلے جاتے ہیں حالیہ برسوں میں بیہویرل اکنامکس اور نیورو اکنامکس کے شعبے میں ہونے والی تحقیق اور مطالعے میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ایسے حالات جن میں ہم غیر معقول فیصلے کرتے ہیں یہ اکثر ہماری مالی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
لیکن اس حوالے سے ہماری سب سے عام مالی غلطیاں کون سی ہیں اور کیسے ہم اپنے ‘دماغ’ کے جھانسے میں آنے سے بچ سکتے ہیں؟
اس کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں کن عادتوں کو اپنا کر اس سے بچ سکتے ہیں۔
کیا آپ ایک ذی شَعُور شخص ہیں؟
فاؤنڈیشن انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریشن آف برازیل میں نیور سائنس اور نیور اکنامکس کے مضامین کی کورڈینٹر پروفیسر ریناتا تاویروس کا کہنا ہے کہ ‘روایتی معاشیات نے طویل عرصے سے انسان کو منطقی، سرد اور معروضی سمجھا ہے اور جو اپنی فلاح و بہبود ، اپنے معاشی فائدے اور اپنے مفاد کو زیادہ سے زیادہ بہتر کرنا چاہے گا۔