Sign In Sign In

Continue with Google
or use

Forgot Password?

Don't have account, Sign Up Here

Forgot Password Forgot Password

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.

Have an account? Sign In Now

Sorry, you do not have permission to ask a question, You must login to ask a question.

Continue with Google
or use

Forgot Password?

Need An Account, Sign Up Here

Sorry, you do not have permission to ask a question, You must login to ask a question.

Continue with Google
or use

Forgot Password?

Need An Account, Sign Up Here

Please briefly explain why you feel this question should be reported.

Please briefly explain why you feel this answer should be reported.

Please briefly explain why you feel this user should be reported.

Sign InSign Up

Nuq4

Nuq4 Logo Nuq4 Logo
Search
Ask A Question

Mobile menu

Close
Ask a Question
  • Nuq4 Shop
  • Become a Member

Ali1234

Researcher
Ask Ali1234
0 Followers
1k Questions
  • About
  • Questions
  • Answers
  • Best Answers
  • Favorites
  • Groups
  • Joined Groups

Nuq4 Latest Questions

  • 0
Ali1234Researcher

کافی ہم تک کیسے پہنچی؟

  • 0
  1. Ali1234 Researcher
    Added an answer on August 5, 2025 at 2:03 am

    آج کا زمانہ کافی کا زمانہ ہے۔ چھوٹے بڑے شہروں میں بے شمار کافی کی دکانیں کھل گئی ہیں۔ یہ کافی خانے بڑے جدید طرز سے بنائے گئے ہیں۔ بزرگ یہاں وقت گزاری کے لیے آتے ہیں تو جوان تفریح کے لیے۔ الغرض کافی کلچر اب ہمارے ملک کا اٹوٹ حصہ بن چکا ہے۔ کافی کے رسیا ایک پیالی کافی پر گھنٹوں گزار دیتے ہیں۔ کافی ہمRead more

    آج کا زمانہ کافی کا زمانہ ہے۔ چھوٹے بڑے شہروں میں بے شمار کافی کی دکانیں کھل گئی ہیں۔ یہ کافی خانے بڑے جدید طرز سے بنائے گئے ہیں۔

    بزرگ یہاں وقت گزاری کے لیے آتے ہیں تو جوان تفریح کے لیے۔ الغرض کافی کلچر اب ہمارے ملک کا اٹوٹ حصہ بن چکا ہے۔ کافی کے رسیا ایک پیالی کافی پر گھنٹوں گزار دیتے ہیں۔

    کافی ہم تک کیسے پہنچی یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔ کہتے ہیں کہ کالدی نامی ایک چرواہے کی بکریوں نے آس پاس لگی جھاڑیوں کے کچھ بیج کھا لیے اور دیکھتے ہی دیکھتے وجد میں آ کر کودنے لگیں۔ چرواہا بکریوں کی اس حرکت سے بڑا پریشان ہوا اور آگے بڑھ کر اس نے بھی ایک بیج چبا ڈالی اور اسی کیفیت سے دوچار ہوا۔

    یہ تھا کافی کا بیج جس میں سرور انگیز کیفیات پائی جاتی ہیں۔ آج بھی جب بدن میں خون کا فشار کم ہو جاتا ہے تو کافی کی ایک پیالی خون کے فشار کو اوپر لانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ 15 ویں صدی میں بابا بودن نامی ایک فقیر عربستان کے ملک یمن سے کافی کے سات بیج کمر بند میں چھپا کر ہندوستان لے آئے۔ بابا بودن کا مسکن جنوبی ہند کا شہر میسور بنا۔ کچھ سرمایہ داروں نے چھوٹے پیمانے پر کافی کی زراعت کا آغاز کیا اور 1840 میں پہلی بار ہندوستان کے جنوبی علاقے کرناٹک میں کافی کی زراعت اور پیداوار بڑے پیمانے پر ہونے لگی۔

    جلد ہی جنوبی ہند کے دوسرے علاقے تمل ناڈو اور کیرالہ بھی اس کی گرفت میں آ گئے۔ 19 ویں صدی میں انگریزوں نے کافی کی زراعت کو بڑھاوا دیا اور کافی تجارت کا اعلی وسیلہ بن گئی۔ کافی جنوبی ہند کے لوگوں کا آج بھی محبوب مشروب ہے۔ ان کی صبح کافی کی پیالی سے ہوتی ہے اور شام بھی کیونکہ یہ تھکن دور کرنے کا بھی وسیلہ ہے۔

    سنہ 1870 کے عشرے میں چائے کی مقبولیت نے کافی کی تجارت پر گہرا اثر ڈالا لیکن سرکاری امداد سے لوگوں نے کافی کی زراعت کو برقرار رکھا۔

    سنہ 1940 میں ہندوستان میں پہلا کافی ہاؤس وجود میں آیا لیکن سنہ 1950 کی دہائی میں سرکاری پالیسی کے تحت کافی ہاؤس بند ہوگئے اور کام کرنے والے بیکار۔ لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اے کے گوپالن کی رہبری میں کافی ہاؤس چلانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اس طرح ملک میں ایک بار پھر کافی ہاؤس زندہ ہو گئے۔

    27 اکتوبر سنہ 1957 کوہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں پہلے کافی ہاؤس کا افتتاح ہوا اور لوگوں کے میل جول کا محبوب اڈہ بن گيا۔ یہ کافی ہاؤس آج بھی موجود ہے اور دہلی کے لوگوں کے ملنے جلنے کا مرکز ہے۔

    کافی کے تعلق سے مختلف دلچسپ کہانیاں ہیں۔ سنہ 1511 میں مکہ گورنر خیر بیگ نے عربستان میں کافی کے استعمال پر روک لگانے کی جان توڑ کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے

    See less
    • 0
    • Share
      Share
      • Share onFacebook
      • Share on Twitter
      • Share on LinkedIn
      • Share on WhatsApp
  • 2 Answers
Answer
  • 0
Ali1234Researcher

ساحل مالابار کے ذائقے اور عرب

  • 0
  1. Ali1234 Researcher
    Added an answer on August 5, 2025 at 2:00 am

    ہندوستان کے جنوب مغربی علاقے میں کیرالا علاقہ جنت کا نمونہ ہے۔ مصالحوں کی بھینی بھینی خوشبو، ہرے بھرے لہلہاتے چاول کے کھیت، کیلوں سے لدے درخت، اونچے قداور درختوں سے جھانکتے ناریل، اور دریاؤں کا صاف شفاف پانی اور موجیں مارتا سمندر اس ساحلی علاقے کو خوبصورت اور دلفریب بناتا ہے۔ نہ صرف اس کی خوبصورتی بRead more

    ہندوستان کے جنوب مغربی علاقے میں کیرالا علاقہ جنت کا نمونہ ہے۔ مصالحوں کی بھینی بھینی خوشبو، ہرے بھرے لہلہاتے چاول کے کھیت، کیلوں سے لدے درخت، اونچے قداور درختوں سے جھانکتے ناریل، اور دریاؤں کا صاف شفاف پانی اور موجیں مارتا سمندر اس ساحلی علاقے کو خوبصورت اور دلفریب بناتا ہے۔

    نہ صرف اس کی خوبصورتی بلکہ کیرالہ میں پائے جانے والے مصالحوں کی مہک بیرونی ممالک کے مداحوں کو یہاں کھینچ لائی اور اس کی تجارت کا سبب بنی۔

    کالی کٹ ساحل مالابار کی اہم بندرگاہ تھی اور بیرونی ممالک سے آنے والے جہاز یہیں لنگر انداز ہوتے تھے۔

    14 ویں صدی میں ابن بطوطہ نے مالابار کے ساحل پر قدم رکھا۔ اپنے سفرنامے میں وہ لکھتے ہیں کہ یہاں کا چپہ چپہ سرسبرزو شاداب ہے اور مصالحہ جات کی جان لیوا خوشبو سے بھرپور۔

    See less
    • 0
    • Share
      Share
      • Share onFacebook
      • Share on Twitter
      • Share on LinkedIn
      • Share on WhatsApp
  • 2 Answers
Answer
  • 0
Ali1234Researcher

کشمیر کے روایتی وازوان کی بات کہاں!

  • 0
  1. Ali1234 Researcher
    Added an answer on August 5, 2025 at 1:58 am

    گر فردوس بر روئے زمین است ہمیں است، ہمیں است، ہمیں است جیسے ہی گھر کا دروازہ کھولا، میز پر رکھے لفافے پر نظڑ پڑی۔ افوہ! پھر ایک شادی۔ لیکن لفافہ کھلتے ہی ساری تھکن ہوا ہوگئی۔ شادی کا کارڈ کیا مسرت کا پیغام تھا۔ قریبی دوست کے صاحب زادے کی شادی کا کارڈ تھا۔ ستمبر کا مہینہ اور سری نگر۔ مزا آ گیا۔ کون کRead more

    گر فردوس بر روئے زمین است

    ہمیں است، ہمیں است، ہمیں است

    جیسے ہی گھر کا دروازہ کھولا، میز پر رکھے لفافے پر نظڑ پڑی۔ افوہ! پھر ایک شادی۔ لیکن لفافہ کھلتے ہی ساری تھکن ہوا ہوگئی۔ شادی کا کارڈ کیا مسرت کا پیغام تھا۔ قریبی دوست کے صاحب زادے کی شادی کا کارڈ تھا۔ ستمبر کا مہینہ اور سری نگر۔ مزا آ گیا۔ کون کافر ہو گا جو اس دعوت سے انکار کرے۔ کشمیر کا حسن لازوال ہے۔ برف سے ڈھکے پہاڑ اور ڈل جھیل میں تیرتے ہوئے ہاؤس بوٹ۔ زعفران کے کھیت، پھلوں سے لدے درخت اور پھولوں کی بہار۔ کشمیر کی خوبصورتی کا ذکر جتنا بھی ہو کم ہے۔ ہر موسم کا اپنا الگ ہی حسن ہے لیکن خزاں کا نظارا اتنا مسحور کن ہوتا ہے کہ انسان ان نظاروں میں کھو کر رہ جاتا ہے۔

    ستمبر میں میں کشمیر کا حسن کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب چناروں کے پتوں میں آگ لگ جاتی ہے اور سارا کشمیر سرخ پتوں سے ڈھک جاتا ہے۔ ہوا میں اڑتے ہوئے چنار کے پتے گنگنانے لگتے ہیں۔ پھولوں کی مہک، سیب آلو بخارا اور دیگر مسمی پھلوں کے ڈھیر۔

    میرا ذہن اسی لازوال حسن کی نقشہ کشی میں ڈوب گيا اور سات ہی وازوان کی تامڑی کی یاد نے اور بےچین کر دیا۔ وازان کے کھانوں کا تصور، اف ستمبر کب آئے گا!

    15 وہیں صدی میں تیمور لنگ کے ساتھ آنے والے باورچی آج بھی کشمیر میں آباد ہیں۔ اگر لکھنؤ میں روایتی باورچیوں کا مسکن باورچی ٹولہ ہے تو سرینگر میں وازا پورہ جہاں ہنرمند باورچي برسوں سے اقامت پذیر ہیں۔

    وازا کے لغوی معنی ہیں کھانوں کی دکان۔ وازا میں کھانوں کی تعداد دیکھتے ہوئے یہ نام بلکل مناسب اور درست ہے۔

    36 انواع و اقسام کے پکوان وازا کی رات بھر کی محنت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ وازوان کے پکوانوں کو تیار کرنا ایک معمولی باورچی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ان کی ہنرمندی اور بنائے ہوئے کھانوں کی لذت بے مثال ہے۔

    فرش پر صاف شفاف سفید براقی دسترخوان اور اس پر رکھی تانبے کی تھال کے ارد گرد بیٹھے چار یا آٹھ مہمان بے صبری سے کھانے کے منتظر ہوتے ہیں۔ خدمت گار ہر مہمان کے آگے طشت اور ناری پیش کرکے ہاتھ دھلواتا ہے اور مسلمان بسم اللہ اور ہندو بھگوان رودرا کا نام لے کر کھانا شروع کرتے ہیں۔

    وازا خود تامڑیوں میں گوشت، مرغ اور ترکاریوں کے بنے مرغن کھانے یکے بعد دیگرے مہمانوں کے تھال میں ڈالتے جاتے ہیں۔ فضا کھانوں کی مہک سے گونج اٹھتی ہے اور مہمان سر جھکائے کھانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

    بیشتر کھانے گوشت اور مرغ پر مبنی ہوتے ہیں، جیسے کباب، کشمیری سالنوں سے بنے مرغ یا گوشت کے مختلف قورمے، تبک ماز، زعفران کوکر، یخنی، رستہ، روغن جوش، آبگوشت، ساتھ ہی مٹی کے چھوٹے چھوٹے نازک پیالوں میں دہی، انواع و اقسام کی چٹنیاں، زعفران میں مہکتے پلاؤ اور تندور سے نکلتی ہوئی گرما گرم روٹیاں، کھیر کے پیالے یا فرنی کی کٹوری۔ مہمان کو فرصت کہاں کسی دوسری جانب دیکھے۔

    کہتے ہیں کہ پنڈت نہرو جب بھی کشمیر آتے تھے تو شیخ عبداللہ ان کے لیے وازوان کا اہتمام کرتے تھے۔

    گو کہ وازوان کے بیشتر کھانے گوشت اور مرغ پر مبنی ہیں پھر بھی سبزی خور مہمانوں کے لیے بھی لطیف اور مزیدار کھانوں کی کمی نہیں ہوتی۔ نادرو یخنی، گوچی پلاؤ، دم آلو، راجما گوگجی، ہک کا ساگ جیسے پکوان ہیں جو وازان کا حصّہ بنتے ہیں۔

    آبگوشت وازوان کا آخری پکوان ہے جو مہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی الما گوشت وازوان کی ضيافت کے خاتمے کا اعلان ہے۔ پھر قہقہوں کا دور چلتا ہے اور مہمان بمشکل اٹھ کر مرغن کھانوں کی یاد لیے اپنے گھر روانہ ہوجاتے ہیں۔

    کسی بھی مہمان کے لیے وازوان کا اہتمام میزبانی کا حرف اول اور میزبان کے وقار اور رتبے کا نمائندہ ہے۔

    اگرچہ آج ہرے بڑے شہروں میں کشمیری کھانوں کی دکانیں کھل گئی ہیں اور بعض جگہوں پر وازوان کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے لیکن کشمیر کے روایتی وازوان کی بات کہاں!

    وقت کے ساتھ وازا کی تعداد بھی کم ہوتی چلی ہے۔ نئی نسل کی نئی پود ان کاموں سے گریز کرتی ہے اور یوں آہستہ آہستہ وازوان بھی داستان پارینہ کا حصہ بن کر رہ جائے گا۔

    ٭ سلمیٰ حسین کھانا پکانے کی شوقین، ماہر طباخ اورکھانوں کی تاریخ نویس ہیں۔ ان کی فارسی زباندانی نے عہد وسطی کے مغل کھانوں کی تاریخ کے اسرار و رموز ان پر کھولے۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ فوڈ کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ سلمیٰ حسین ہمارے لیے مضامین کی ایک سیریز لکھ رہی ہیں۔

    See less
    • 0
    • Share
      Share
      • Share onFacebook
      • Share on Twitter
      • Share on LinkedIn
      • Share on WhatsApp
  • 2 Answers
Answer
  • 0
Ali1234Researcher

'سوا ارب افراد کو خوراک، پانی کی کمی اور افلاس کا خطرہ'

  • 0
  1. Ali1234 Researcher
    Added an answer on August 5, 2025 at 1:55 am

    اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں سوا ارب سے زیادہ افراد کو زمین کی کم ہوتی ہوئی زرخیزی کے سبب خوراک، پانی کی کمی اور افلاس کا خطرہ ہے۔ یہ بات اقوام متحدہ کے کنوینشن (یو این سی سی ڈی) نے منگل کو کہی ہے۔ یو این سی سی ڈی نے کہا ہے کہ گذشتہ 30 سالوں میں زمین کے قدرتی ذخائر کا استعRead more

    اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں سوا ارب سے زیادہ افراد کو زمین کی کم ہوتی ہوئی زرخیزی کے سبب خوراک، پانی کی کمی اور افلاس کا خطرہ ہے۔

    یہ بات اقوام متحدہ کے کنوینشن (یو این سی سی ڈی) نے منگل کو کہی ہے۔

    یو این سی سی ڈی نے کہا ہے کہ گذشتہ 30 سالوں میں زمین کے قدرتی ذخائر کا استعمال دگنا ہو گیا جس سے کرۂ ارض کی ایک تہائی زمین کی زرخیزی شدید طور پر متاثر ہوئی۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال 15 ارب درخت کاٹے جا رہے ہیں جبکہ 24 ارب ٹن زرخیز زمین ختم ہوتی جا رہی ہے۔

    چین کے شہر اورڈوس میں منگل کو جاری ہونے والی رپورٹ میں یو این سی سی ڈی نے کہا: ‘جس زمین پر ہم رہ رہے ہیں اس پر اس قدر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ بکھرنے کے قریب ہے اور اسے بچانے کے لیے اس کی حفاظت اور تجدید کاری ضروری ہے۔’

    اقوام متحدہ کا ادارہ یو این سی سی ڈی زمین کی بہتر دیکھ بھال اور استعمال کو فروغ دیتا ہے اور یہ عالمی سطح پر زمین کے سلسلے میں واحد قانونی معاہدہ ہے۔

    یو این سی سی ڈی کے نائب ايگزیکٹو سیکریٹری پردیپ مونگا نے کہا کہ جنگل کاٹنے، حد سے زیادہ چراہ گاہوں کا استعمال کرنے، سیلاب کے بار بار آنے اور خشک سالی کے سبب جب زمین کم زرخیز ہو جاتی ہے تو لوگ شہروں اور دوسرے ممالک کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہو جاتے ہیں اور وسائل کی کمی کے سبب تصادم کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ان سب سے معیشت متاثر ہوتی ہے۔

    انھوں نے کہا: ‘اگر آپ زمین کی کم ہوتی ہوئی زرخیزی کو نہیں روکیں گے تو ہم ایک ایسے چکر میں پھنس جائیں گے جہاں لوگوں کو اپنے روزگار، گھربار اور کھیت کھلیان کو کھونا پڑ سکتا ہے۔’

    انھوں نے مزید کہا کہ اگر زمین کی زرخیزی کم ہوتی ہے تو دنیا کو لوگوں کے کھانے کے لیے کم چیزیں دستیاب ہوں گی۔

    ایک اندازے کے مطابق ابھی دنیا کی آبادی سات ارب ہے جو کہ سنہ 2050 میں نو ارب ہو جائے گی اور اس کے ساتھ مشکلات میں اضافہ ہو گا۔

    خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق پردیپ مونگا نے بتایا ‘اگر ہم زمین کی کم ہوتی ہوئی زرخيزی کو روک سکیں، اپنے ریگستانوں کو سبزہ زار بنا سکیں تو ہم بہ آسانی اپنی خوراک کو محفوظ کر سکتے ہیں۔’

    انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ جیسے ‘کھانا ضائع نہ ہونے دیں، زمین کی مینجمنٹ میں بہتری لائیں، کاشتکاری کے سمارٹ طریقے اپنائے جائیں اور زمین کی کم ہوتی ہوئی زرخیزی کو روکنے کے لیے قومی پالیسی وضع کریں تو اس بہت زیادہ فرق پڑے گا۔

    See less
    • 0
    • Share
      Share
      • Share onFacebook
      • Share on Twitter
      • Share on LinkedIn
      • Share on WhatsApp
  • 2 Answers
Answer
  • 0
Ali1234Researcher

چین چاند پر آلو اگائے گا

  • 0
  1. Ali1234 Researcher
    Added an answer on August 5, 2025 at 1:53 am

    چین کے سائنس دان اپنے آئندہ خلائی مشن کے دوران چاند پر آلو اگانے کی بھی کوشش کرنے والے ہیں۔ ایک چینی اخبار ’چانگ قنگ پوسٹ‘ کے مطابق چاند سے متعلق ’چانگ 4 مشن‘ آئندہ برس لانچ کیا جائے گا اور اسی مشن کے تحت آلوؤں کو زمینی ماحول (ایکوسسٹم) کی طرح کے ایک چھوٹے سے حصے کے اندر رکھا جائے گا۔ چانگ قنگ یونیوRead more

    چین کے سائنس دان اپنے آئندہ خلائی مشن کے دوران چاند پر آلو اگانے کی بھی کوشش کرنے والے ہیں۔

    ایک چینی اخبار ’چانگ قنگ پوسٹ‘ کے مطابق چاند سے متعلق ’چانگ 4 مشن‘ آئندہ برس لانچ کیا جائے گا اور اسی مشن کے تحت آلوؤں کو زمینی ماحول (ایکوسسٹم) کی طرح کے ایک چھوٹے سے حصے کے اندر رکھا جائے گا۔

    چانگ قنگ یونیورسٹی کے پروفیسر شی ژنپنگ نے اس اخبار کو بتایا کہ مختلف طرح کے تجربات کے لیے چاند کی سطح پر ریشمی کیڑے کے لاروے کے ساتھ ایک سیلنڈر بھی رکھا جائے گا۔

    چین کے انٹر نیشنل ریڈیو کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ آیا چاند کی سطح پر کیڑے اور آلو کے پودے بچ پاتے ہیں یا نہیں۔ اس کے مطابق اس سے جو نتائج برآمد ہوں گے اس سے اس بات کا پتہ چل سکتا ہے کہ مستقبل میں وہاں انسانی زندگی کس حد تک ممکن ہو سکے گی

    سنہ 2015 میں آنے والی سائنس فکشن فلم ’دی مارٹن‘ میں آلو کا مرکزی کردار ہے۔

    یہ فلم اینڈی ویئر کی کتاب پر مبنی تھی جس میں میٹ ڈیمن نے خلا باز کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں وہ مریخ پر پھنس جاتے ہیں پھر زندہ رہنے کے لیے وہاں پر وہ آلو اگانے کی کوشش کرتے ہیں

    See less
    • 0
    • Share
      Share
      • Share onFacebook
      • Share on Twitter
      • Share on LinkedIn
      • Share on WhatsApp
  • 2 Answers
Answer
  • 0
Ali1234Researcher

کیڑے مار ادویات شہد کی مکھیوں کی افزائش کے لیے خطرہ

  • 0
  1. Ali1234 Researcher
    Added an answer on August 5, 2025 at 1:51 am

    برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ موسم بہار میں چھڑکی جانے والی عام کیڑے مار دواؤں کی وجہ سے شہد کی جنگلی مکھیوں کی آبادی متاثر ہو سکتی ہے۔ انگلینڈ کے دیہات میں پائی جانے والی بمبل بی (شہد کی بڑی مکھی) پر تحقیق کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ تھیامیتھوژیم نامی کیڑے مار دوا ملRead more

    برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ موسم بہار میں چھڑکی جانے والی عام کیڑے مار دواؤں کی وجہ سے شہد کی جنگلی مکھیوں کی آبادی متاثر ہو سکتی ہے۔

    انگلینڈ کے دیہات میں پائی جانے والی بمبل بی (شہد کی بڑی مکھی) پر تحقیق کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ تھیامیتھوژیم نامی کیڑے مار دوا ملکہ مکھیوں میں انڈوں کی افزائش کو کم کر دیتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر اس سے آئندہ سال شہد کی مکھیوں کی تعداد میں کمی واقع ہو جائے گی۔

    تھیامیتھوژیم نامی دوا ان تین نیونکوٹینائڈ کیڑے مار دواؤں میں شامل ہے جس کے استعمال پر یورپی یونین میں پابندی ہے۔ اور یہ پابندیاں اس وقت عائد کی گئیں جب یہ خدشات ظاہر کیے گئے کہ ان سے شہد کی جنگلی بڑی مکھیاں متاثر ہوتی ہیں۔

    جنگل میں پکڑی جانے والی مکھیوں پر کیڑے مار دواؤں نیونکوٹینائڈ کا تجربہ کیا گیا اور دو ہفتے کے بعد یہ نظر آيا کہ چار میں سے دو اقسام کی مکھیوں کی خوراک میں کمی آ گئی جبکہ چاروں اقسام کی شہد کی مکھیوں میں انڈے پیدا ہونے کا عمل متاثر ہوا۔

    اس تحقیق کی سربراہ ریسرچر لندن کی رائل ہالووے یونیورسٹی کی ڈاکٹر جیما بیرون نے بتایا: ‘ہم نے شہد کی جن چار اقسام کی رانی مکھیوں کا مشاہدہ کیا ان میں ہم نے بیضہ دانی کے فروغ میں کمی دیکھی۔ ہم نے ان مکھیوں کو کِرم کش دواؤں سے اتنا ہی قریب لائے جتنا کہ وہ کھیتوں میں چھڑکی جانے والی حشرات کش دواؤں کے ربط میں آ سکتی تھیں۔’

    انھوں نے مزید بتایا کہ ‘ان کے کھانے کی مقدار پر حشرات کش دوا نیونکوٹینائڈ کے اثرات ان کی اقسام کے لحاظ سے مختلف ہوئے۔’

    ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان کے عمل تولید متاثر ہو سکتی ہیں اور آئندہ سال ان کی آبادی میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس جانچ سے شہد کی جنگلی مکھیوں پر پڑنے والے اثرات کا علم ہوتا ہے اور یہ اہمیت کا حامل ہے۔

    خیال رہے کہ جاڑوں میں رانی مکھیاں تنہائی میں چلی جاتی ہیں اور بہار آنے پر وہ کھانے کی تلاش میں نکلتی ہیں اور گھونسلہ بنانے کے لیے جگہ تلاش کرتی ہیں۔

    عالمی پیمانے پر بمبل بی کی تعداد میں مرض پھیلانے والے جرثوموں، پناہ گاہ کی کمیوں اور کِرم کش دواؤں کے سبب کمی ہو رہی ہے۔

    See less
    • 0
    • Share
      Share
      • Share onFacebook
      • Share on Twitter
      • Share on LinkedIn
      • Share on WhatsApp
  • 2 Answers
Answer
  • 0
Ali1234Researcher

کرۂ ارض پر موجود 40 فیصد حشرات کے معدوم ہونے کا خطرہ

  • 0
  1. Ali1234 Researcher
    Added an answer on August 5, 2025 at 1:40 am

    حشرات الارض کی تعداد پر ہونے والی ایک سائنسی تحقیقی کے مطابق دنیا بھر میں ان کی 40 فیصد انواع کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ اس تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ پرندوں، رینگنے والے اور ممالیہ جانوروں کی نسبت مکھیاں، چیونٹیاں اور بھونرے آٹھ فیصد زیادہ تیزی سے معدوم ہو رہے ہیں۔ تاہم محققین کا کہنا ہے کہ اس بRead more

    حشرات الارض کی تعداد پر ہونے والی ایک سائنسی تحقیقی کے مطابق دنیا بھر میں ان کی 40 فیصد انواع کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

    اس تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ پرندوں، رینگنے والے اور ممالیہ جانوروں کی نسبت مکھیاں، چیونٹیاں اور بھونرے آٹھ فیصد زیادہ تیزی سے معدوم ہو رہے ہیں۔

    تاہم محققین کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کے کچھ انواع جیسا کہ گھروں میں پائے جانے والی مکھیوں اور لال بیگوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔

    بہت زیادہ کاشت کاری، کیڑے مار زرعی ادویات کا استعمال اور موسمیاتی تبدیلیاں حشرات الارض کی تعداد میں کمی کی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔

    حشرات کرۂ ارض پر پائے جانے والی مخلوقات کا ایک بڑا حصہ ہیں اور انسانوں سمیت دوسری مخلوقات کو بہت سے اہم فائدے دیتے ہیں۔

    یہ پرندوں، چمگادڑوں اور چھوٹے ممالیہ جانوروں کے لیے خوراک کا کام دیتے ہیں، دنیا میں 75 فیصد فصلوں کی تخم کاری کا باعث بنتے ہیں، مٹی کو زرخیز بناتے ہیں اور اس میں موجود ضرررساں کیڑوں کی تعداد کنٹرول میں رکھتے ہیں۔

    حالیہ برسوں میں ہونے والی مختلف تحقیقات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ خاص کر ترقی یافتہ ممالک میں حشرات کی کچھ انفرادی اقسام جیسا کہ مکھیاں اس معدومی کا زیادہ شکار ہیں۔

    تاہم زیر بحث مقالہ اس معاملے پر زیادہ روشنی ڈالتا ہے۔

    ‘بائیولوجیکل کنزرویشن’ نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں گزشتہ 13 برسوں کے دوران پوری دنیا میں اس حوالے سے کیے گئے 73 تحقیقی مقالوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

    محققین کو معلوم ہوا ہے کہ حشرات الارض کمی کا عمل اسی طرح سے جاری رہا تو آئندہ چند دہائیوں میں 40 فیصد معدوم ہو جائیں گے۔ ان کے مطابق دنیا میں پائے جانے والے ایک تہائی حشرات ‘خطرے’ میں ہیں۔

    محققین کی ٹیم کے سربراہ اور یونیورسٹی آف سڈنی کے ڈاکٹر فرانسیسکو سانچیز بیشیو نے بی بی سی کو بتایا ‘اس کی سب سے بڑی وجہ (حشرات کے) قیام اور افزائش کے ٹھکانوں کا خاتمہ ہے اور اس کی وجہ زراعت کے موجودہ طریقہ کار، جنگلوں کی کٹائی اور شہروں میں بڑھتی ہوئی آباد کاری ہے۔’

    ‘دوسرا زراعت میں کیمیکل سے بھرپور کیڑے مار ادویات اور مصنوعی کھادوں کا بڑھتا ہوا استعمال، تیسرا چند حیاتیاتی عناصر جیسا کہ بیماری پھیلانے والے حملہ آور جراثیم اور چوتھا موسمیاتی تبدیلیاں خاص کر منطقہ حارہ (ٹراپیکل) میں جہاں ان کا واضح اثر ہے۔

    See less
    • 0
    • Share
      Share
      • Share onFacebook
      • Share on Twitter
      • Share on LinkedIn
      • Share on WhatsApp
  • 2 Answers
Answer
  • 0
Ali1234Researcher

بایو چار کیا ہے اور یہ ماحولیات کے لیے کتنا مفید ہے؟

  • 0
  1. Ali1234 Researcher
    Added an answer on August 5, 2025 at 1:37 am

    مغربی آسٹریلیا میں دسمبر کی گرمیوں میں ایک مویشی فارم میں کھاد کی بو کو نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ لیکن ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ ہم نے دیکھا کہ گوبر کے کیڑوں کا ایک جھرمٹ تندہی سے اپنے کام میں لگا ہوا تھا اور جلد ہی گائے کا گوبر زمین کے اندر جانے والا تھا۔ کسی عام گرم دن میں ان کیڑوں کو گائے کے گوبRead more

    مغربی آسٹریلیا میں دسمبر کی گرمیوں میں ایک مویشی فارم میں کھاد کی بو کو نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ لیکن ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ ہم نے دیکھا کہ گوبر کے کیڑوں کا ایک جھرمٹ تندہی سے اپنے کام میں لگا ہوا تھا اور جلد ہی گائے کا گوبر زمین کے اندر جانے والا تھا۔

    کسی عام گرم دن میں ان کیڑوں کو گائے کے گوبر کو زمین سے پوری طرح صاف کرنے میں ایک گھنٹے سے بھی کم کا وقت لگتا ہے لیکن دوسرے مواقعوں پر جب موسم قدرے ٹھنڈا ہو اور کیڑے کم سرگرم ہوں تو اتنے ہی گوبر کو صاف کرنے میں دو ہفتوں تک کا وقت لگ جاتا ہے۔

    کسی بھی صورت میں یہ کیڑے بہت ہی نزاکت سے اس وقت تک کام کرتے ہیں جب تک کہ دیو قامت کاری کے درختوں سے گرمیوں کی خشک ہواؤں میں یوکلپٹس کی بو نہ آنے لگے۔

    یہ مخصوص کیڑے جن گوبر کے ڈھیڑ کو دفن کرنے میں لگے ہیں وہ معمولی گوبر کے ڈھیر نہیں ہیں۔ جنوب مغربی آسٹریلیا میں منجیمپ کے پاس اس فارم پر پائے جانے والے گوبر کے ڈھیر میں بایوچارسے مالامال مادہ پایا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ سینکنے کے عمل سے اس سے خاص طور پر تارکول نکلتا ہے جسے مویشیوں کے چارے میں شامل کیا جاتا ہے یہ تارکول کی طرح کا سیاہ مادہ دیہی آسٹریلیا کے اس علاقے میں گائے سے خارج ہونے والے میتھین کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ کاربن کو زمین میں دفن کرنے کے معاملے میں کسی انقلاب سے کم نہیں۔

    مویشیوں سے ماحولیات پر ہونے والے اثرات کو کم کرنے میں بایو چار ایک راستہ ہے جس پر کسان کام کر رہے ہیں۔ گائیں اپنے کھانے کو ہضم کرنے کے لیے جب جگالی کرتی ہیں تو ان سے میتھین خارج ہوتی ہے جو کہ ایسی گرین ہاؤس گیس ہے جو کاربن ڈائی آکسائڈ سے 25 گنا زیادہ شدید ہے۔ میتھین کے اثرات ڈکار اور ریاح دونوں کے اخراج میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب ان کا کھانا ہضم ہو کر گوبر کی شکل میں باہر آتا ہے تو ان سے بھی کم مقدار میں میتھین گیس خارج ہوتی رہتی ہے۔

    آج دنیا میں تقریبا ایک ارب 40 کروڑ مویشی ہیں اور مجموعی طور پر تمام جانوروں سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیس میں سے یہ مویشی 65 فیصد گیس خارج کرتے ہیں۔ گایوں سے میتھین کے اخراج کو کم کرنے کے لیے انھیں ویکسین سے لے کر سمندری گھاس تک دی جاتی ہے۔ اب اس بات میں مزید دلچسپی پائی جاتی ہے کہ

    یہ بھربھرا سیاہ مادہ عام طور پر علم جنگلات اور دوسری صنعتوں کے بائی پروڈکٹ کے طور پر حاصل ہوتا ہے۔ یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بایوماس یا حیاتی مادہ زیادہ درجۂ حرارت اور کم آکسیجن میں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں یہ پائیرولائسس نامی عمل سے گزرتا ہے۔ جدید کاشتکاری میں اس کے استعمال سے قبل امیزونیا کے کسان پانچویں صدی قبل مسیح میں اپنے کھیتوں میں اسکا استعمال کرتے تھے تاکہ انھیں زرخيز کالی مٹی حاصل ہو جسے امیزونیا بیسن میں ٹیراپیٹا کہا جاتا ہے۔

    گائے کو بایوچار کھلانے کی تاریخ بھی لمبی اور قابل ذکر ہے۔ تیسری صدی قبل مسیح میں کیٹو دی ایلڈر یعنی کیٹو کلاں نے لکھا کہ بیمار مویشیوں کو ‘زندہ کوئلے کا تین ٹکڑا’ یا تارکول دینا چاہیے۔ بہر حال انھوں نے یہ تجویز بھی دی کہ بیمار گائے کو تین پنٹ یعنی ساڑھے چار پاؤ شراب دینی چاہیے اور اس کے ساتھ دوسرے قابل اعتراض مادے بھی۔

    حالیہ مطالعوں سے پتہ چلا ہے کہ کیٹو دی ایلڈر کے نظریے میں دانشوری ہو سکتی ہے۔ سنہ 2012 میں ویت نام میں ہونے والی ایک تحقیق نے یہ پتہ چلایا کہ مویشیوں کے چارے میں نصف سے ایک فیصد بایوچار ملانے سے ان کے میتھین کے اخراج میں دس فیصد سے زیادہ کمی ہوسکتی ہے جبکہ بعض دوسری تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ 17 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ امریکہ کے عظیم میدان میں گائے اور بھینس پر ہونے والی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ ان کے چارے میں بایوچار ملانے سے میتھین کے اخراج میں 9۔5 سے 18۔4 فیصد تک کمی ہوتی ہے۔ اب جبکہ مویشیوں سے خارج ہونے والے میتھین گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا 90 فیصد ہیں تو ایسے میں یہ کمی قابل قدر ہے۔

    بہر حال کس طرح بایوچار سے یہ کمی واقع ہوتی ہے ابھی اسے بہتر ڈھنگ سے نہیں سمجھا جا سکا ہے۔ ایک طریقہ جو سمجھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ میتھین کے مولیکیولز کو ‘جذب’ کر لیتے ہیں یا پھر اسے وہیں روکے رہتے ہیں اور خارج نہیں ہونے دیتے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے بایوچار گایے کے مائیکروبایوم میں ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو کہ اچھی طرح سے ہاضمے کا سبب ہوتے ہیں۔ ہوشچولے گیزنہم یونیورسٹی کی کلاڈیا کیمّمن کا کہنا ہے کہ بایوچار کس طرح میتھین گیس کے اخراج کو کم کرتا ہے یا کس حد تک کم کرتا ہے کو جاننے کے لیے مزید مطالعے کی ضرورت ہے۔

    مینجیمپ کے پاس والے فارم میں مویشیوں کو پالنے والے دو پو بایوچار پر ہونے والے مطالعے میں کئی برسو‎ں سے شامل ہیں۔ انھیں بایوچار مقامی سیلیکان پیدا کرنے والے سے بائی پروڈکٹ کے طور پر حاصل ہوتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر اس کی جانب میتھین کے اخراج کو کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ زمین میں زیادہ کاربن ضبط کرنے کے متوجہ ہوئے تھے۔ اس کا دوہرا نتیجہ کاربن کو جذب کرنے اور زمین کو زخیز بنانے کے طور پر سامنے آيا۔

    میلبرن یونیورسٹی میں مٹی کے سائنس کی لکچرر بھاونا بھٹ کا کہنا ہے کہ ‘بایوچار کے انتہائی جذب کرنے والی فطرت اور اس کی سطح کی اونچائی کے سبب یہ زمین میں زیادہ پانی روکنے کی اہلیت پیدا کرتا ہے۔۔۔ بایوچار میں موجود سوراخوں کے نیٹورک سے زمین کو مائیکرو آرگینزم کو رہنے کی جگہ ملتی ہے۔ اس سے مٹی میں موجود مائیکروبس میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔’

    لیکن شروع میں ڈو پو یہ سوچا کرتے تھے کہ وہ اپنے چراگاہ میں کس طرح بایوچار لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے عام طور پر بڑی اور مہنگی مشینیں چاہیے ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا: ‘میں نے سوچا کہ ہمارے پاس فارمنگ کے بڑے آلات نہیں ہیں اور میرے دروازے بھی زیادہ کشادہ نہیں ہیں۔

    ڈو پو سوچا کرتے تھے کہ کیا وہ اپنے کھیتوں میں بغیر کسی محنت کے اپنی گایوں کے گلوں سے بایوچار پہنچوا سکتے ہیں؟ اگر چہ وہ دن بھر ان چراگاہوں میں گھومتی پھرتی رہتی تھی اور اس کے گوبر ہر طرف بکھرے ہوتے تھے۔ گویا یہ ایک خودکار ڈلیوری کے نظام کی طرح تھا۔

    لیکن بایوچار سے بھرپور گوبر کے ان کی زمین پر پھیل جانے کے بعد بھی مزید چیلنجز تھے کہ اب یہ گوبر کھیت میں کیسے جائيں گے۔

    سخت آسٹریلین خطے میں گائے کی چپڑیاں بے محل ہیں۔ ابتدا میں یورپ سے آنے والوں نے یہاں گائے، بھیڑیں اور دوسرے مویشی متعارف کرائے۔ کنگارو اور دوسرے دیسی جانور کم مقدار میں فضلے خارج کرتے تھے۔ اس کی جگہ وہ نیریاں کرتے جس کے ساتھ مقامی کیڑوں نے کام کرنے کا طریقہ ایجاد کر لیا تھا۔ لیکن یہ کیڑے گائے کے رطوبت والے نرم گوبر کو نظر انداز کر دیتے تھے۔

    ڈو پو کو بووائن کیڑے تلاش کرنے پڑے جنھیں آسٹریلیا میں پہلی بار سنہ 1960 کی دہائی میں متعارف کرایا گیا تھال لیکن یہ نسبتا نادر ہی ہیں۔ لیکن ایک ماہر حشریات سے مشورہ پانے کے بعد ڈو پو نے جانچ شروع کی کہ آیا بایوچار کھلانے سے گوبر والے کیڑے کو نقصان تو نہیں پہنچ رہا اور اس تحقیق میں انھیں نیو ساؤتھ ویلز کی یونیورسٹی میں محقق سٹیفن جوزف کا ساتھ ملا۔

    آیا گائے کی خوراک میں بایو چار جیسی کسی چیز کو شامل کرکے میتھین کے اخراج کو مزید کم کیا جا سکتا ہے۔

    See less
    • 0
    • Share
      Share
      • Share onFacebook
      • Share on Twitter
      • Share on LinkedIn
      • Share on WhatsApp
  • 2 Answers
Answer
  • 0
Ali1234Researcher

پاکستان میں گیس کے ذخائر میں بڑی کمی: کیا اس بحران سے نکلنے کے لیے کوئی متبادل موجود ہے؟

  • 0
  1. Ali1234 Researcher
    Added an answer on August 5, 2025 at 1:08 am

    ’چولہے، ہیٹر اور گیزر بند۔ اب بس سردی میں ٹھٹھرتے رہنا ہی ہمارا مقدر بن گیا۔۔۔‘ اسلام آباد کی رہائشی ذکیہ نیئر کا سوال ہے کہ جب دن میں صرف آٹھ گھنٹے گیس آئے گی تو وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے لیے کھانا کیسے بنائیں گی؟ ذکیہ ان پاکستانیوں میں سے ہیں جو گرمیوں میں غیر اعلانیہ گیس لوڈشیڈنگ کے بعد اب سردیRead more

    ’چولہے، ہیٹر اور گیزر بند۔ اب بس سردی میں ٹھٹھرتے رہنا ہی ہمارا مقدر بن گیا۔۔۔‘ اسلام آباد کی رہائشی ذکیہ نیئر کا سوال ہے کہ جب دن میں صرف آٹھ گھنٹے گیس آئے گی تو وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے لیے کھانا کیسے بنائیں گی؟

    ذکیہ ان پاکستانیوں میں سے ہیں جو گرمیوں میں غیر اعلانیہ گیس لوڈشیڈنگ کے بعد اب سردیوں میں بھی گیس کی ’16 گھنٹے لوڈ شیڈنگ‘ کے حکومتی اعلان سے انتہائی نالاں ہیں۔

    نگران وزیر توانائی محمد علی نے سردیوں میں گھریلو صارفین کے لیے گیس کی لوڈ مینیجمنٹ سے متعلق پوچھے گئے بی بی سی کے سوال کے جواب میں بتایا کہ ’اس سال بھی گذشتہ سال کی طرح دن میں آٹھ گھنٹے گیس سپلائی کی جائے گی۔‘

    ملک میں گیس کے ذخائر میں ایک سال میں ’18 فیصد کمی‘ کے باعث نگران حکومت کی کوشش ہے کہ ’سردیوں میں گھروں کو آٹھ گھنٹے گیس ملے۔‘ یعنی صرف کھانے کے اوقات کے دوران صبح چھ سے نو، پھر دو گھنٹے دوپہر کو اور شام بھی چھ سے نو گیس سپلائی ہوگی۔  انھوں نے کہا کہ ’ان اوقات کار سے گھریلو صارفین کی گیس کی طلب پوری ہو جائے گی اور ہماری کوشش ہے کہ صنعتوں کو گیس کی سپلائی زیادہ سے زیادہ ملے کیونکہ وہ لوگوں کے روزگار کے لیے اور کارخانے چلانے کے لیے بہت ضروری ہیں۔

    ملک میں سردیوں کے دوران گیس کی لوڈ شیڈنگ تو کئی سال سے معمول ہے تاہم رواں سال گرمیوں میں بھی گیس کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہوئی۔

    اسلام آباد کی ذکیہ نیئر نے اس صورتحال کو ’انتہائی کوفت‘ کا باعث قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بجلی کی قیمت میں اضافے کے بعد گھروں کو گرم رکھنے کے لیے بجلی کے ہیٹر استعمال کرنا بھی ممکن نہ ہوگا۔

    انھیں لگتا ہے کہ اب ’گھر کے ایک کونے میں مٹی کا چولہا بنا لوں اور بچوں کو لکڑیاں اکٹھی کرنے بھیجا کروں۔ اس کے علاوہ تو کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔۔۔‘

    ادھر کراچی کی سکول ٹیچر یاسمین ناز کی شکایت ہے کہ صرف گیس کی لوڈ شیڈنگ ہی نہیں ہوتی بلکہ ’جو گیس آنے کا وقت ہے اس میں بھی پریشر اس قدر کم آ رہا ہوتا ہے کہ چاول یا روٹی بنانا مشکل ہوتا ہے۔‘

    ’پچھلے دنوں فلو اور گلا خراب رہا تو رات میں نہ سٹیم لے سکی نہ قہوہ گھر میں بنا سکی۔ لگتا ہے کہ دوبارہ لکڑیوں اور کوئلے کے دور میں پہنچ جائیں گے۔

    ان کا مطالبہ ہے کہ ملک میں قدرتی گیس کی کمی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ گیس کے غیر قانونی کنکشنز کو ختم کیا جائے۔

    وہ بتاتی ہیں کہ ’ہمارے پڑوس میں ایک خاتون نے گیس نہ آنے پر چھت پر اینٹیں رکھ کر ایک چولہا بنا لیا ہے جس میں وہ لکڑیاں ڈال کر کھانا بناتی ہیں۔ اس میں وہ دودھ کے خالی ڈبے اور دیگر ردی ڈال کر آنچ بھی بڑھاتی ہیں۔۔۔ لگتا ہے کہ لوگ آہستہ آہستہ مختلف حل کی جانب جانے پر مجبور ہوں گے۔‘

    پشاور کی رہائشی نسرین نے بتایا کہ ’گرمیوں میں گیزر چلتے ہیں نہ ہیٹر۔ پھر بھی آٹھ سے 10 گھنٹے گیس نہیں ہوتی۔ اور اب جب آٹھ گھنٹے گیس آنے کا اعلان کر دیا گیا ہے تو بچوں کا کھانا ناشتہ سکول گرم پانی کرنا غرض سارے چولہے سے متعلق کام کیسے ہوں گے زندگی تو مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔‘

    ’ہمارے ہاں خیبر پختونخوا میں گیس کے ذخائر تو ہیں مگر کوئی حکومت اس پر کام نہیں کرتی۔ ہمارے ہاں ذخائر کو استعمال کیا جائے اور ان سے فائدہ اٹھایا جائے تاکہ لوگوں کو گیس اور روزگار بھی ملے

    See less
    • 0
    • Share
      Share
      • Share onFacebook
      • Share on Twitter
      • Share on LinkedIn
      • Share on WhatsApp
  • 2 Answers
Answer
  • 0
Ali1234Researcher

حکومتی دستاویزات کے مطابق اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کیسی ہے؟

  • 0
  1. Ali1234 Researcher
    Added an answer on August 5, 2025 at 1:03 am

    وفاقی حکومت کی جانب سے دعوی کیا گیا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی جانب سے کیا جانے والا یہ دعوی کہ انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور انھیں وکلا سے ملاقات کی اجازت نہیں، درست نہیں ہے۔ یہ دعوی وفاقی حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی ایک دستاویز میں کیا گیا ہRead more

    وفاقی حکومت کی جانب سے دعوی کیا گیا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی جانب سے کیا جانے والا یہ دعوی کہ انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور انھیں وکلا سے ملاقات کی اجازت نہیں، درست نہیں ہے۔

    یہ دعوی وفاقی حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی ایک دستاویز میں کیا گیا ہے جن پر ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ محمد شفقت عباسی کا نام درج ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی ان دستاویزات پر اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے دستخط بھی ہیں۔

    اس دستاویز کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں موجود تصاویر جیل میں حکومت کے مطابق عمران خان کی زندگی اور ان کو میسر سہولیات کا احاطہ کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان دستاویزات میں عمران خان سے وکلا، سیاست دانوں اور اہلخانہ کی ملاقاتوں کی تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں۔

    حکومتی دستاویزات سے جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے، یہ جاننے سے پہلے دیکھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اس دستاویز سے متعلق کیا کہا گ سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کے دوران عمران خان نے ویڈیو لنک پر پیشی کے دوران کہا تھا کہ انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور وکلا سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی۔

    عمران خان کے اسی بیان کا حوالہ دیتے ہوئے وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں حقائق سامنے لانے کے لیے جیل میں ہونے والی ملاقاتوں کا ریکارڈ اور بیرک کی تصاویر فراہم کی جا رہی ہیں۔

    یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اگر عدالت مناسب اور ضروری سمجھتی ہے تو عدالت کے سامنے جمع کرائے گئے حقائق کی تصدیق کے لیے کسی جوڈیشل افسر کو بطور کمیشن تعینات کر سکتی ہے۔

    یکس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پی ٹی آئی کے آفیشل پیج پر جاری ہونے والے ایک پیغام میں حکومتی دستاویزات میں موجود ایک کمرے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ‘پاکستان کے سابق وزیراعظم کو جیل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھا گیا ہے، جہاں انھیں کوئی سہولت میسر نہیں۔’

    اگر اس تصویر کا جائزہ لیں تو یہ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں ایک جانب بستر موجود ہے جبکہ دوسری جانب ایک میز اور کرسی موجود ہیں۔

    تصویر میں دکھائی دینے والے کمرے کے آخر میں دیوار پر ایک ٹی وی سکرین نصب ہے جبکہ ساتھ ہی ایک کولر بھی موجود ہے۔

    تاہم اسی کمرے میں بستر کے عقب میں موجود چھوٹی دیواروں والا ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جس کے ساتھ نصب واش بیسن کو دیکھ کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بیت الخلا ہے

    عمران خان کی قانونی ٹیم میں شامل وکیل نعیم حیدر پنجوتہ نے کہا کہ آج اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ عمران خان کس حالت میں جیل میں رہ رہے ہیں اور یہ تاثر دینا غلط ہے کہ وہ جیل میں لگژری زندگی گزار رہے ہیں۔‘

    بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جو تصاویر آج عدالت میں دکھائی گئی ہیں، وہ اے یا بی کلاس کی نہیں، جو سابق وزیراعظم کا حق ہوتا ہے بلکہ عمران خان کو ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے۔‘

    انھوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پہلے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمران خان کے زیر استعمال آٹھ کمرے ہیں لیکن وہ 8/10 کے ایک کمرے میں رہ رہے ہیں۔

    ’اس کمرے میں بھی کوئی ایئر کنڈیشنر نہیں، کوئی ایسی سہولیات نہیں جو نواز شریف کو ملتی رہی ہیں۔‘

    انھوں نے یہ بھی کہا کہ جہاں تک عمران خان کو کتابیں فراہم کرنے کی بات ہے تو ذوالفقار علی بھٹو کو بھی کتابوں کی سہولت مہیا کی گئی تھی بلکہ وہ تو جیل کے اندر سے کتابیں لکھتے بھی تھے لیکن عمران خان تو اندر سے کوئی بھی چیز لکھ کر باہر نہیں دے سکتے بلکہ وہ تو اپنا پیغام بھی وکلا کے ذریعے بھجواتے ہیں۔

    جیل میں عمران خان سے ملنے آنے والے مہمانوں کی فہرست پر بات کرتے ہوئے نعیم حیدر پنجوتہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے بار بار حکم کے بعد عمران خان کو سیاسی لوگوں سے بات کرنے کی اجازت دی گئی تاہم عمران خان کی ان کے بچوں سے ابھی بھی بات نہیں کرائی جا رہی۔

    اب دیکھتے ہیں کہ ان دستاویز میں موجود تصاویر ہمیں جیل میں موجود عمران خان کی زندگی کے بارے میں کیا بتاتی ہیں۔ واضح رہے کہ بی بی سی ان تصاویر اور اس دستاویز میں موجود دعووں کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکتا تاہم تحریک انصاف نے جیل میں عمران خان کے کمرے کی تصویر کی تصدیق کی ہے۔

    See less
    • 0
    • Share
      Share
      • Share onFacebook
      • Share on Twitter
      • Share on LinkedIn
      • Share on WhatsApp
  • 2 Answers
Answer

Sidebar

Explore

  • Nuq4 Shop
  • Become a Member

Footer

Get answers to all your questions, big or small, on Nuq4.com. Our database is constantly growing, so you can always find the information you need.

Download Android App

© Copyright 2024, Nuq4.com

Legal

Terms and Conditions
Privacy Policy
Cookie Policy
DMCA Policy
Payment Rules
Refund Policy
Nuq4 Giveaway Terms and Conditions

Contact

Contact Us
Chat on Telegram
en_USEnglish
arالعربية en_USEnglish
We use cookies to ensure that we give you the best experience on our website. If you continue to use this site we will assume that you are happy with it.OkCookie Policy