ہندوستان کے جنوب مغربی علاقے میں کیرالا علاقہ جنت کا نمونہ ہے۔ مصالحوں کی بھینی بھینی خوشبو، ہرے بھرے لہلہاتے چاول کے کھیت، کیلوں سے لدے درخت، اونچے قداور درختوں سے جھانکتے ناریل، اور دریاؤں کا صاف شفاف پانی اور موجیں مارتا سمندر اس ساحلی علاقے کو خوبصورت اور دلفریب بناتا ہے۔ نہ صرف اس کی خوبصورتی بRead more
ہندوستان کے جنوب مغربی علاقے میں کیرالا علاقہ جنت کا نمونہ ہے۔ مصالحوں کی بھینی بھینی خوشبو، ہرے بھرے لہلہاتے چاول کے کھیت، کیلوں سے لدے درخت، اونچے قداور درختوں سے جھانکتے ناریل، اور دریاؤں کا صاف شفاف پانی اور موجیں مارتا سمندر اس ساحلی علاقے کو خوبصورت اور دلفریب بناتا ہے۔
نہ صرف اس کی خوبصورتی بلکہ کیرالہ میں پائے جانے والے مصالحوں کی مہک بیرونی ممالک کے مداحوں کو یہاں کھینچ لائی اور اس کی تجارت کا سبب بنی۔
کالی کٹ ساحل مالابار کی اہم بندرگاہ تھی اور بیرونی ممالک سے آنے والے جہاز یہیں لنگر انداز ہوتے تھے۔
14 ویں صدی میں ابن بطوطہ نے مالابار کے ساحل پر قدم رکھا۔ اپنے سفرنامے میں وہ لکھتے ہیں کہ یہاں کا چپہ چپہ سرسبرزو شاداب ہے اور مصالحہ جات کی جان لیوا خوشبو سے بھرپور۔
آج کا زمانہ کافی کا زمانہ ہے۔ چھوٹے بڑے شہروں میں بے شمار کافی کی دکانیں کھل گئی ہیں۔ یہ کافی خانے بڑے جدید طرز سے بنائے گئے ہیں۔ بزرگ یہاں وقت گزاری کے لیے آتے ہیں تو جوان تفریح کے لیے۔ الغرض کافی کلچر اب ہمارے ملک کا اٹوٹ حصہ بن چکا ہے۔ کافی کے رسیا ایک پیالی کافی پر گھنٹوں گزار دیتے ہیں۔ کافی ہمRead more
آج کا زمانہ کافی کا زمانہ ہے۔ چھوٹے بڑے شہروں میں بے شمار کافی کی دکانیں کھل گئی ہیں۔ یہ کافی خانے بڑے جدید طرز سے بنائے گئے ہیں۔
بزرگ یہاں وقت گزاری کے لیے آتے ہیں تو جوان تفریح کے لیے۔ الغرض کافی کلچر اب ہمارے ملک کا اٹوٹ حصہ بن چکا ہے۔ کافی کے رسیا ایک پیالی کافی پر گھنٹوں گزار دیتے ہیں۔
کافی ہم تک کیسے پہنچی یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔ کہتے ہیں کہ کالدی نامی ایک چرواہے کی بکریوں نے آس پاس لگی جھاڑیوں کے کچھ بیج کھا لیے اور دیکھتے ہی دیکھتے وجد میں آ کر کودنے لگیں۔ چرواہا بکریوں کی اس حرکت سے بڑا پریشان ہوا اور آگے بڑھ کر اس نے بھی ایک بیج چبا ڈالی اور اسی کیفیت سے دوچار ہوا۔
یہ تھا کافی کا بیج جس میں سرور انگیز کیفیات پائی جاتی ہیں۔ آج بھی جب بدن میں خون کا فشار کم ہو جاتا ہے تو کافی کی ایک پیالی خون کے فشار کو اوپر لانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ 15 ویں صدی میں بابا بودن نامی ایک فقیر عربستان کے ملک یمن سے کافی کے سات بیج کمر بند میں چھپا کر ہندوستان لے آئے۔ بابا بودن کا مسکن جنوبی ہند کا شہر میسور بنا۔ کچھ سرمایہ داروں نے چھوٹے پیمانے پر کافی کی زراعت کا آغاز کیا اور 1840 میں پہلی بار ہندوستان کے جنوبی علاقے کرناٹک میں کافی کی زراعت اور پیداوار بڑے پیمانے پر ہونے لگی۔
جلد ہی جنوبی ہند کے دوسرے علاقے تمل ناڈو اور کیرالہ بھی اس کی گرفت میں آ گئے۔ 19 ویں صدی میں انگریزوں نے کافی کی زراعت کو بڑھاوا دیا اور کافی تجارت کا اعلی وسیلہ بن گئی۔ کافی جنوبی ہند کے لوگوں کا آج بھی محبوب مشروب ہے۔ ان کی صبح کافی کی پیالی سے ہوتی ہے اور شام بھی کیونکہ یہ تھکن دور کرنے کا بھی وسیلہ ہے۔
سنہ 1870 کے عشرے میں چائے کی مقبولیت نے کافی کی تجارت پر گہرا اثر ڈالا لیکن سرکاری امداد سے لوگوں نے کافی کی زراعت کو برقرار رکھا۔
سنہ 1940 میں ہندوستان میں پہلا کافی ہاؤس وجود میں آیا لیکن سنہ 1950 کی دہائی میں سرکاری پالیسی کے تحت کافی ہاؤس بند ہوگئے اور کام کرنے والے بیکار۔ لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اے کے گوپالن کی رہبری میں کافی ہاؤس چلانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اس طرح ملک میں ایک بار پھر کافی ہاؤس زندہ ہو گئے۔
27 اکتوبر سنہ 1957 کوہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں پہلے کافی ہاؤس کا افتتاح ہوا اور لوگوں کے میل جول کا محبوب اڈہ بن گيا۔ یہ کافی ہاؤس آج بھی موجود ہے اور دہلی کے لوگوں کے ملنے جلنے کا مرکز ہے۔
کافی کے تعلق سے مختلف دلچسپ کہانیاں ہیں۔ سنہ 1511 میں مکہ گورنر خیر بیگ نے عربستان میں کافی کے استعمال پر روک لگانے کی جان توڑ کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے