ایرانی کمپنیوں کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ پاکستان ایران فری ٹریڈ معاہدہ تیار ہو چکا ہے، معاہدے سے دو طرفہ تجارت میں اضافہ ہو گا۔ حکومت سرمایہ کاری میں آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔ زراعت، معدنیات اور توانائی میں دو طرفہ تعاون کی وسیع گنجائش موجود ہے۔‘ ایران کے صدر مسعود پزشکیان، جو اپنا دوRead more
ایرانی کمپنیوں کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ پاکستان ایران فری ٹریڈ معاہدہ تیار ہو چکا ہے، معاہدے سے دو طرفہ تجارت میں اضافہ ہو گا۔ حکومت سرمایہ کاری میں آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔ زراعت، معدنیات اور توانائی میں دو طرفہ تعاون کی وسیع گنجائش موجود ہے۔‘
ایران کے صدر مسعود پزشکیان، جو اپنا دو روزہ دورۂ پاکستان مکمل کر کے واپس چلے گئے ہیں کی موجودگی میں اتوار کو اسلام آباد میں منعقدہ پاکستان ایران بزنس فورم سے خطاب کے دوران پاکستانی حکام نے یہ الفاظ ادا کیے۔
حکام نے مزید کہا کہ جو دس ارب ڈالر کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اسے کامیاب بنانے کے لیے نجی شعبہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان نے ایران کے صدر مسعود پزشکیان کے سنیچر اور اتوار کو پاکستان کے پہلے دو روزہ دورے کے دوران باہمی سرمایہ کاری کو تین ارب ڈالر سے بڑھا کر دس ارب ڈالر کرنے کے لیے 12 کے قریب معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔
وزیر تجارت نے کہا کہ زراعت، معدنیات اور توانائی میں دو طرفہ تعاون کی وسیع گنجائش موجود ہے اور حکومت سرمایہ کاری میں آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔
بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان ایران بزنس فورم کا انعقاد خوش آئند ہے، پاکستان میں زرعی اور صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری کے بہت سے مواقع ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’دونوں ممالک تجارت کی راہ میں رکاوٹ کو دور کریں گے۔‘
اس فورم سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزیر تجارت محمد عطا آتابک نے کہا کہ ’خوشی ہے پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت بڑھے گی، مواصلات اور تجارت سے دونوں ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘
مگر اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان جو پہلے ہی ایران سے ماضی میں گیس پائپ لائن سمیت اہم منصوبوں کو مکمل نہیں کر سکا تو اب امریکی پابندیوں کے ہوتے ہوئے یہ سب کر سکے گا یا پھر یہ قسمت آزمائی ہی ہے
توشہ خانہ کیس میں عدالت سے تین سال کی سزا پانے کے بعد بانی پاکستان تحریکِ انصاف اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو پانچ اگست 2023 کو لاہور میں اُن کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا اور آج اُن کی قید کو دو سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس دن کی مناسبت سے پاکستان تحریکِ انصاف آج ’ملک گیر احتجاج‘ کر رہی ہے۔ اRead more
توشہ خانہ کیس میں عدالت سے تین سال کی سزا پانے کے بعد بانی پاکستان تحریکِ انصاف اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو پانچ اگست 2023 کو لاہور میں اُن کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا اور آج اُن کی قید کو دو سال مکمل ہو گئے ہیں۔
اس دن کی مناسبت سے پاکستان تحریکِ انصاف آج ’ملک گیر احتجاج‘ کر رہی ہے۔ اس احتجاج کا اعلان گذشتہ ماہ عمران خان نے ایکس اکاؤنٹ کے ذریعے کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم اُن کے اکاؤنٹس سے پیغامات پوسٹ کرتی ہے۔
اس پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پانچ اگست کو میری ناحق قید کو پورے دو برس مکمل ہو جائیں گے، اُس روز ہماری ملک گیر احتجاجی تحریک کا نقطہ عروج ہو گا۔‘
آج ہونے والا یہ احتجاج کس حد تک کامیاب رہے گا، یہ تو وقت آنے پر ہی پتا چلے گا، مگر اس سے قبل چند نکات ایسے ہیں جن کا احاطہ ضروری ہے۔
پنجاب کی تحصیل عارف والا سے تعلق رکھنے والے پارٹی کارکن شیخ طلحہ طارق کہتے ہیں کہ اُن کے خیال میں فی الوقت جس انداز میں پارٹی کے اُمور چلائے جا رہے ہیں، شاید وہ ایسے نہیں جیسا کہ عمران خان چاہتے ہیں۔
طلحہ پارٹی کی موجودہ قیادت سے ’مایوس‘ ہیں مگر وہ پُرامید بھی ہیں آنے والے دنوں میں پارٹی اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کر لے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے گذشتہ دِنوں بورے والا روڈ سے ساہیوال روڈ تک ریلی نکالی جس میں صرف 100 کے قریب ورکرز موجود تھے۔ یہ کارکنوں کے لیے مایوسی کا دور ہے مگر اس کے باوجود عمران خان اب بھی مقبول تو ہیں۔‘
ادریس چیمہ کا تعلق سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال سے ہے۔ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت اور اس کی پالیسیوں کے حوالے سے وہ خدشات کا شکار ہیں کیونکہ، اُن کے مطابق پارٹی کی موجودہ سیاسی قیادت، ’اتنی سیاسی نہیں جتنا اسے ہونا چاہیے۔‘
مگر ادریس کا یہ بھی ماننا ہے کہ ’پارٹی قیادت کی سمت جو بھی ہو، بالآخر ہو گا وہی جیسا عمران خان چاہیں گے۔‘
بہت سے پی ٹی آئی سپورٹرز کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابتدا میں انھیں امید تھی کہ ان کے لیڈر جلد ہی جیل سے باہر آ جائیں گے مگر اُن کے مطابق ’اب عمران خان کی جتنی طویل اسیری ہوتی جا رہی ہے، وہ لوگوں کو خدشات اور مایوسی کا شکار کر رہی ہے
ی ٹی آئی کی مقبولیت کے دنوں میں کئی اہم شخصیات اس پارٹی میں شامل ہوئی تھیں۔ مگر نو مئی کے واقعات کے بعد جہاں بعض دیرینہ رہنما پارٹی کا ساتھ چھوڑ گئے، وہیں ایسے رہنماؤں نے بھی پارٹی سے علیحدگی اختیار کی جو سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل اس پارٹی کا حصہ بنے تھے۔
ہم نے بہت سے ایسے رہنماؤں سے رابطہ کیا جو 2018 کے الیکشن سے قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے یا انھوں نے آزاد حیثیت میں پی ٹی آئی کی تائید حاصل کی۔ پنجاب میں موجود یہ رہنما سمجھتے ہیں کہ اُن کے حلقوں میں آج بھی ’جیت کا نشان عمران خان اور اُن کی پارٹی کا ٹکٹ‘ ہی ہے۔
اُسامہ اصغر علی جنوبی پنجاب کے شہر لیہ سے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 282 سے پی ٹی آئی کی حمایت سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے گذشتہ عام انتخابات سے کچھ عرصہ قبل پی ٹی آئی میں اُس وقت شمولیت اختیار کی تھی جب عمران خان جیل میں تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم جس انداز سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے، آج بھی اُسی انداز سے پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ووٹرز عمران خان کی رہائی کے لیے بے چین ہیں۔ جب اُن کو لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں ایسا ہونے کا امکان نہیں تو وہ مایوس ضرور ہوتے ہیں مگر ایسے وقت میں بھی وہ وفاداری تبدیل کرنے کا نہیں سوچتے۔‘
اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما نعیم حیدر پنجوتھہ نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ تحریک انصاف پر چھائے مشکل حالات کے باعث بہت سے لوگوں نے اپنی راہیں جدا کیں مگر ان مشکل حالات کے باوجود حلقوں میں انتخابی سیاست کرنے والے بعض اہم رہنما اُن کی پارٹی میں شامل ہونے کا سوچ رہے ہیں اور مرکزی قیادت سے رابطے میں ہیں۔