اگرچہ پاکستان تحریک انصاف نے اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے ان کے بیٹوں کی مدد سے ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا تاہم اس سلسلے میں پارٹی کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک طرف عمران خان کی بہن علیمہ خان کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے قاسم خان اور سلیمان خان کو ویزRead more
اگرچہ پاکستان تحریک انصاف نے اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے ان کے بیٹوں کی مدد سے ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا تاہم اس سلسلے میں پارٹی کو مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک طرف عمران خان کی بہن علیمہ خان کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے قاسم خان اور سلیمان خان کو ویزے جاری نہیں کیے جا رہے۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کے بیٹوں کو ویزے درکار ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ’پاکستانی شہری نہیں ہیں۔‘
ایک حالیہ انٹرویو میں قاسم اور سلیمان نے بتایا ہے کہ وہ اپنے والد سے ملنے کے لیے بے تاب ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان جا کر ان سے ملاقات کر سکیں۔
ایکس پر ایک پیغام میں پاکستان کے وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت نے ایسا کبھی نہیں کہا کہ قاسم اور سلیمان کو ویزے جاری نہیں کیے جائیں گے یا پھر انھیں پاکستان آمد پر گرفتار کر لیا جائے گا۔
علیمہ خان اور پاکستانی وزرا کے متضاد دعوے
علیمہ خان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بچوں میں سے ایک کا نائیکوپ (اوورسیز پاکستانیوں کا شناختی کارڈ) گُم ہو گیا ہے اور دوسرے کو مل نہیں رہا۔
سنیچر کو اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان نے کہا کہ قاسم اور سلیمان کو پاکستان آنے کے لیے نائیکوپ یا پاکستانی ویزا درکار ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ قاسم اور سلیمان نے برطانیہ میں پاکستانی حکام سے دو درخواستیں کی ہیں جن میں سے ایک نائیکوپ کے دوبارہ اجرا کی ہے اور دوسری ویزے سے متعلق ہے۔
علیمہ نے کہا کہ عمران خان کے بیٹوں کے نائیکوپ کی میعاد اگلے چھ، سات سال تک ہے اور اگر حکام چاہیں تو انھیں شناختی کارڈ نمبر کی بنیاد پر پاکستان آنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عمران خان کے بیٹوں کے پاس نائیکوپ اور برٹش پاسپورٹ دونوں کی آپشن ہے۔ وہ سوال کرتی ہیں کہ اس کے باوجود قاسم اور سلیمان کو ویزے جاری کیوں نہیں کیے جا رہے۔
عمران خان کی بہن نے دعویٰ کیا کہ دونوں درخواستوں کے ٹریکنگ نمبر ان کے پاس موجود ہیں۔ انھوں نے ایکس پر دعویٰ کیا تھا کہ اس معاملے میں پاکستانی وزارت داخلہ کی منظوری کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں پارلیمنٹ کی پبلک اکاونٹس کمیٹی نے ملک میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے معامل پر بلائے گئے اجلاس میں گزشتہ مالی سال میں اس کی برآمد اور موجودہ مالی سال کے پہلے مہینے میں حکومت کی جانب سے اس کی درآمد کی اجازت کی پالیسی پر تشویش کا اظہار کیا۔ اجلاس میں گزشتہ مالی سال میں چینی برآمد کرنےRead more
پاکستان میں پارلیمنٹ کی پبلک اکاونٹس کمیٹی نے ملک میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے معامل پر بلائے گئے اجلاس میں گزشتہ مالی سال میں اس کی برآمد اور موجودہ مالی سال کے پہلے مہینے میں حکومت کی جانب سے اس کی درآمد کی اجازت کی پالیسی پر تشویش کا اظہار کیا۔
اجلاس میں گزشتہ مالی سال میں چینی برآمد کرنے والی شوگر ملوں کی تفصیلات بھی جمع کرائی گئیں اور ملک میں چینی کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے شوگر ملوں کو منافع کی تفصیلات سے بھی اجلاس کے شرکا کو آگاہ کیا گیا۔
کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر اور دوسرے اراکین کی جانب سے شوگر ملوں کے مالکان کے نام کی تفصیلات بھی مانگی گئیں تاہم حکومتی اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔
پاکستان میں گزشتہ چند مہینوں میں چین کی قیمت میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس اضافے کی وجہ ملک سے چینی کی برآمد کو قرار دیا گیا تھا جب گزشتہ سال ساڑھے سات لاکھ ٹن کے لگ بھگ چینی برآمد کی گئی۔ حکومت کی جانب سے چینی برآمد کی وجہ اس کے سرپلس اسٹاک کو قرار دیا گیا تھا تاہم اس برآمد کے بعد مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور ملک کے کچھ حصوں میں چینی کی قیمت دو سو روپے فی کلو تک پہنچ گئی
پی اے سی اجلاس میں ملک میں چینی کی برآمد کی تفصیلات جمع کرائی گئیں جس میں بتایا گیا کہ 67 شوگر ملوں نے چالیس کروڑ ڈالر یعنی 112 ارب روپے کی چینی برآمد کی تو دوسری جانب اجلاس میں نشاندہی کی گئی کہ مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافے سے شوگر ملوں نے 300 ارب روپے کا منافع کمایا۔
پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاسوں کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی ریاض الحق جو آخری اجلاس میں بھی موجود تھے، نے بی بی سی کو بتایا کہ اجلاس میں حکومت کی جانب سے چینی برآمد کرنے والی شوگر ملوں کی تفصیلات جمع کرائی گئیں اور اس سے کمائے جانے والے زرمبادلہ کی تفصیلات بھی جمع کرائی گئیں۔
ریاض نے بتایا کہ اجلاس کے دوران آڈیٹر جنرل نے یہ ریمارکس دیے کہ مقامی قیمت میں اضافے کی وجہ سے شوگر ملوں نے تین سو ارب روپے کا منافع کمایا۔
چینی کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے شوگر ملوں کو تین سو ارب روپے کے منافع کے بارے میں پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن سے رابطہ کیا گیا ۔ آڈیٹر جنرل کے ریمارکس کے بارے میں ایسوسی ایشن کے ترجمان نے اپنے مختصر جواب میں کہا کہ تین سو ارب روپے کے منافع کی بات صحیح نہیں ہے اور یہ بغیر کسی ثبوت کے ہے