هل نسيت كلمة المرور؟ الرجاء إدخال بريدك الإلكتروني، وسوف تصلك رسالة عليه حتى تستطيع عمل كلمة مرور جديدة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن السؤال.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن الإجابة.
برجاء توضيح أسباب شعورك أنك بحاجة للإبلاغ عن المستخدم.
الٹراپروسیسڈ غذائیں پھیپڑوں کے کینسر کا خطرہ 41 فیصد تک بڑھا دیتی ہیں
حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مطالعے میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ الٹرا‑پروسیسڈ غذاؤں کا زیادہ استعمال پھیپڑوں کے کینسر کے خطرے کو تقریباً 41 فیصد تک بڑھا سکتا ہے۔ مذکورہ بالا تحقیق میں تقریباً 101,700 امریکی بالغوں کا ڈیٹا 12 سال تک فالو کیا گیا جن میں سے 1,706 افراد کو پھیپڑوں کا کینسر لاحق ہوا۔اقرأ المزيد
حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مطالعے میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ الٹرا‑پروسیسڈ غذاؤں کا زیادہ استعمال پھیپڑوں کے کینسر کے خطرے کو تقریباً 41 فیصد تک بڑھا سکتا ہے۔
مذکورہ بالا تحقیق میں تقریباً 101,700 امریکی بالغوں کا ڈیٹا 12 سال تک فالو کیا گیا جن میں سے 1,706 افراد کو پھیپڑوں کا کینسر لاحق ہوا۔
اُن افراد میں جو روزانہ زیادہ مقدار میں الٹرا‑پروسیسڈ خوراک استعمال کرتے تھے، پھیپڑوں کے کینسر کا خطرہ 41% زیادہ تھا، جبکہ تجزیے میں سگریٹ نوشی اور عمومی غذائی معیار کو بھی مدنظر رکھا گیا۔
واضح رہے کہ یہ تحقیق صرف ایک مشاہداتی مطالعہ ہے۔ یعنی یہ سبب و معلول ثابت نہیں کرتا بلکہ صرف ایک اعداد و شمار کا ملاپ پیش کرتا ہے۔
مزید برآں غذائی رجحانات وقت کے ساتھ تبدیل ہوسکتے ہیں۔ ماہرین نے الٹرا پروسیسڈ فوڈز میں کولڈ ڈرنک، انڈسٹریل اسنیکس، انسٹنٹ نوڈلز، فروزن کھانے، پراسیسڈ گوشت، کیک، پیزا وغیرہ کو شامل کیا ہے۔
یہ غذائیں عام طور پر بےحد نمک، چکنائی، شکر اور کیمیکل پر مشتمل ہوتی ہیں اور سبزی، پھل اور دیگر غذائی اجزا میں قلیل ہوتی ہیں۔
ایک آسٹریلوی تحقیق نے بتایا کہ اگر روزمرہ خوراک میں 40% یا زیادہ الٹرا پروسیسڈ غذائیں شامل ہوں تو سانس کی بیماریوں کی وجہ سے موت کا خطرہ 26٪ تک بڑھ سکتا ہے۔
قراءة أقلماں کا دودھ: اللہ کی رحمت اور بچے کا حق
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دودھ پلانے کے عالمی ہفتے کی مناسبت سے معلومات تحریر
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دودھ پلانے کے عالمی ہفتے کی مناسبت سے معلومات تحریر
قراءة أقلماں کا دودھ: اللہ کی رحمت اور بچے کا حق
ماہ اگست کا پہلا ہفتہ دنیا بھر میں بریسٹ فیڈنگ کی آگاہی کے طور پہ منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں میں اموات کی شرح mortality perinatal اور خوراک کی کمی یعنی malnutrition خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ اسکی ایک بڑی وجہ ابتدائی عمر میں breastfeeding exclusive کا نہ ہونا ہے۔ ربِّ کائنات نے بچّے کے دناقرأ المزيد
ماہ اگست کا پہلا ہفتہ دنیا بھر میں بریسٹ فیڈنگ کی آگاہی کے طور پہ منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں میں اموات کی شرح mortality perinatal اور خوراک کی کمی یعنی malnutrition خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ اسکی ایک بڑی وجہ ابتدائی عمر میں breastfeeding exclusive کا نہ ہونا ہے۔
ربِّ کائنات نے بچّے کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی اْس کی خوراک کا جو انتظام کر رکھا ہے، وہ طبّی اور غذائی اعتبار سے قدرت کا ایک شاہکار نظام ہے۔ ماں کا دودھ اللہ تعالیٰ کا انعام اور بچّے کے لیے ایک متوازن اور چھے ماہ تک کے لیے ایک مکمل غذا ہے۔ سورہ البقرہ کی آیت 233 میں ماؤں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ’’اور مائیں اپنے بچّوں کو پورے دوسال تک دودھ پلائیں۔‘‘
ہمارے پیارے نبی، حضرت محمّدﷺ نے بھی دودھ پلانے والی ماں کے لیے بہت زیادہ اجر کی بشارت دی ہے۔ ’’مجمع الزوائد‘‘ اور ’’کنزالعمال‘‘ کی روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’بچّے کی پیدائش کے بعد (ماں کی چھاتی سے) دودھ کا جو قطرہ نکلتا ہے اور جب بچّہ اْس دودھ کو پیتا ہے، تو ہر گھونٹ اور ہر قطرے پر عورت کو نیکی ملتی رہتی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ماں کے دودھ میں ایسے قدرتی اجزا رکھے ہیں، جن سے بچّے کی قوّتِ مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ بہت سی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔اور اِس کے ذریعے بچّے کا نظامِ ہضم بھی درست کام کرتا ہے۔ ماں کے دودھ میں موجود اینٹی باڈیز مختلف جراثیم سے بچّے کو تحفّظ فراہم کرتی ہیں خاص طور پر ابتدائی دِنوں کا دودھ،یعنی ’’colostrum ‘‘جراثیم کے خلاف مدافعت کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اِس لیے وہ بچّے کو ضرور پلانا چاہیے۔
ماں کے دودھ کے بچے کو فوائد
ماں کا دودھ پینے والا بچّہ عموماً موٹاپے اور ذیابطیس سے محفوظ رہتا ہے۔ ماں کے دودھ میں مختلف غذائی اجزا مثلاً چکنائی، نشاستہ، لحمیات، نمکیات اور وٹامنز متناسب مقدار میں پائے جاتے ہیں، جو بچّے کے لیے بے حد مفید ثابت ہوتے ہیں، اسی لیے یہ دودھ پینے والے بچّے، دیگر بچّوں کی نسبت زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔
نیز، ماں کا دودھ پینے سے ماں اور بچّے میں مضبوط تعلق استوار ہوتا ہے۔ طبّی ماہرین کی جانب سے خصوصی ہدایت دی جاتی ہے کہ پیدائش کے فوراً بعد بچّے کو ماں کے ساتھ لگا دیا جائے۔پھر چوں کہ ماں کا دودھ بہت خالص، جراثیم سے پاک اور مناسب درجہ حرارت پر بچّے کو ملتا ہے۔ تو بلاشبہ یہ بچّے کے لیے دنیا میں آنے کے بعد پہلا اور اَنمول تحفہ ہے،جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماں کے ذریعے ودیعت کیا جاتا ہے اور یہ بچّے کا حق بھی ہے۔
ماں کے لیے فوائد
یہ بچّے کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی نشوونما کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔نیز، اپنے بچّے کو دودھ پلانے سے ماں کو بھی بے شمار طبّی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔مثلاً بچّہ جب دودھ پیتا ہے، تو ماں کے جسم میں ایک ہارمون ’’oxytocin‘‘ بنتا ہے، جس سے ماں کے مختلف اعضا اور جلد، جَلد اصل حالت میں آجاتے ہیں، خون کا بہاؤ جلد رْک جاتا ہے اور پیدائش کے بعد بہت زیادہ خون بہنے سے ہونے والے hemorrhage Postpartumکے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔نیز، یہ بچّوں میں وقفے کا ایک قدرتی طریقہ بھی ہے۔اسی طرح جو مائیں بچّوں کو دودھ پلاتی ہیں، اْن میں چھاتی اور تولیدی اعضا کے سرطان(کینسر) کے امکانات کم ہوجاتے ہیں، پھر یہ کہ بچّوں کو اپنا دودھ پلانے والی مائیں بار بار بوتل اْبالنے کے تردّد سے بھی بچ جاتی ہیں۔
دودھ پلانے کا صحیح طریقہ
پہلی دفعہ ماں بننے والی خواتین کو دودھ پلانے میں جن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، اکثراوقات اْس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ناتجربہ کاری کے سبب دودھ پلانے کے صحیح طریقے سے واقف نہیں ہوتیں۔ اردگرد کے لوگ بھی جَلد بازی میں فوراً ڈبّے کا دودھ شروع کرنے کا مشورہ دے دیتے ہیں۔ جس سے ماں مزید پریشان ہوجاتی ہے۔بچّے کو دودھ پلاتے ہوئے یہ باتیں ذہن میں رکھیں:
٭آرام دہ اور پْرسکون جگہ بیٹھ کر بچّے کو دودھ پلائیں۔ گھر کے باقی افراد کی بھی ذمّے داری ہے کہ وہ ماں کو یہ موقع فراہم کریں کہ وہ کسی الگ جگہ پر سْکون ہو کر بچّے کو وقت دے سکے۔ اِس طرح دودھ کی فراہمی بہتر ہوتی ہے۔
٭ ماں کو دودھ پلانے سے پہلے خود کم ازکم ایک گلاس پانی یا کوئی اور مشروب ضرور پی لینا چاہیے تاکہ دودھ میں کمی نہ ہو۔
٭گھر والوں کو اِس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ اجنبی لوگوں کی موجودگی اور ماں کی ذہنی پریشانی دودھ کے بہاؤکو متاثر کرتی ہے۔
٭دودھ پلاتے ہوئے بچّے کا سر اور بدن اگر داہنی طرف ہو، تو دائیں بازو پر یوں رکھا جائے کہ سر کْہنی کے قریب بازو پر ہو اور بچّے کا بدن اور داہنا بازو ماں کی طرف پلٹا ہوا ہو۔ ماں انگلی سے بچّے کے نتھنوں کو کْھلا رکھے تاکہ اْسے سانس لینے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔
٭ نپل کے گرد کا سیّاہ حصّہ بھی بچّے کے منہ میں جانا چاہیے، کیوں کہ دودھ سے بَھری نالیاں اْسی حصّے میں ہوتی ہیں۔ اگر بچّہ صرف نپل منہ میں لے گا، تو اْسے دودھ نہیں ملے گا اور نپل بھی زخمی ہوجائے گا اور پھر یہ سمجھا جائے گا کہ دودھ کی کمی ہے، حالاں کہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ دودھ پلانے کا طریقہ درست نہیں ہوتا۔ عموماً اگر طریقہ درست ہو، تو ماں کے دودھ میں کمی نہیں ہوتی۔
٭پیدائش کے وقت بچّے کا وزن کم ہو، تو اْسے کم وقفے سے دودھ پلانا ضروری ہوتا ہے تاکہ اْس کا وزن نارمل ہوسکے۔ ایسے بچّے کو ہر دو گھنٹے بعد تقریباً15سے 20 منٹ تک درست طریقے سے ساتھ لگائیں۔ اگر کم زوری سے بچّہ جلد تھک جائے، تو دودھ نکال کر، نکلا ہوا دودھ چمچ یا ڈراپر کے ذریعے بھی پلایا جاسکتا ہے، جب کہ بریسٹ پمپ سے بھی دودھ نکالا جاسکتا ہے،(جب تک کہ بچّہ مکمل طور پر خود دودھ پینے کے قابل نہ ہوجائے)۔
٭دودھ دونوں طرف سے باری باری پلایا جائے، جب تک ایک طرف سے دودھ خالی نہ ہوجائے، سائیڈ نہ بدلی جائے۔
کم زور بچّے کے لیے اپنی ماں کا دودھ اور بھی ضروری ہے، اِس لیے ماؤں کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ یہ دودھ ضائع نہ ہو۔ ماں اپنے بچّے کے لیے جو محنت کرے گی، یقیناً اللّٰہ اْس کا اجر دے گا۔یاد رہے، جڑواں بچّوں کے لیے بھی ماں کا دودھ کافی ہوتا ہے ۔
ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ بچّے کی تربیت و پرورش ماں کے پیٹ سے شروع ہوجاتی ہے اور جب ماں بچّے کو دودھ پلاتی ہے، تو اْس کے جذبات، مزاج، خیالات بھی بچّے پر اثر انداز ہوتے ہیں، اِسی لیے صحابیاتِ کرام اپنے بچّوں کو باوضو ہوکر دودھ پلاتیں اور اِس دوران مسلسل ذکر و تلاوت کرتی رہتیں اور تب ہی اْن کی تربیت، اور اْن کی گودوں میں پلنے والے بچّے انسانیت کے روشن ستارے بنے۔
آج کے والدین کو بھی اِن باتوں کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ گھر کے ماحول کو مِل جْل کر پْرسکون رکھیں۔ یوں گھرانے کے باقی افراد کا بھی فرض ہے کہ وہ ماؤں کو سہولت اور وقت دیں تاکہ وہ نومولود کو پوری توجّہ دے سکیں۔ علاوہ ازیں، ماں خود بھی اور دیگر افراد بھی ماں کی خوراک کا خاص خیال رکھیں۔ آج جب ہم دیکھتے ہیں توپوری دنیا میں ماں کے دودھ کی افادیت کے پیشِ نظر ماؤں کو سہولتیں دی جا رہی ہیں، جب کہ ہمیں تو ساڑھے 14 سوسال پہلے ہی یہ اہمیت قرآنِ پاک اور نبی کریمﷺ نے سمجھا دی تھی۔
دودھ پلانے والی ماں کی خوراک
دودھ پلانے والی ماں کو اضافی حراروں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ماں اور بچّے، دونوں کو بھرپور توانائی مل سکے، خصوصاً پہلے چھے ماہ میں جب کہ بچّہ صرف ماں کے دودھ پر ہوتا ہے، ماں کو خصوصی توجّہ دینی چاہیے۔اِس دوران ماں کو تقریباً500حرارے خوراک سے ملنے چاہئیں، جو اضافی لحمیات، چکنائی، دودھ سے پورے کیے جائیں۔ اس کے ساتھ اضافی کیلشیئم، آئرن، فولک ایسڈ اور وٹامنز کی ضرورت بھی بڑھ جاتی ہے۔
بہتر تو یہی ہے کہ مائیں حمل کے دَوران ہی متوازن خوراک کا استعمال شروع کردیں، جس میں تازہ سبزیاں، پھل، گوشت/قیمہ، مچھلی(موسم کے مطابق)، دالیں، دودھ اور دودھ سے بنی اشیا شامل ہوں۔ کھانوں کے درمیان وقفہ کم ہو اور دن میں7/8مرتبہ کھانا، کھانا چاہیے۔ ایک دن کی خوراک کا شیڈول درج ذیل ہوسکتا ہے۔
٭صبح 7 بجے ناشتا: انڈا، پراٹھا/ روٹی، دودھ۔
٭ 10:30بجے: شربت یا چائے، ساتھ میں بسکٹ، پنجیری، سینڈوچ وغیرہ۔
٭ایک بجے دوپہر: دوپہر کا کھانا، گھر میں بنا ہوا کھانا پیٹ بَھر کر کھائیں (روٹی، سالن، چاول، دہی، سلاد)۔
٭4 بجے شام: دودھ یا چائے کے ساتھ حلوہ/ بسکٹ یا ہلکی غذا، پھل یا شربت بھی لے سکتی ہیں۔
٭7 بجے، رات کا کھانا :گھر میں بنی ہوئی غذا دوپہر کی طرح پیٹ بَھر کرلیں۔
٭10بجے رات: دودھ کا گلاس۔
نیز، بستر کے قریب خشک بسکٹ، پھل، کھجور یا خشک میوہ جات ضرور رکھیں کہ چھوٹا بچّہ رات کو بھی دودھ پیتا ہے اور ماں کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔اچھی خوراک کے ساتھ ہلکی پْھلکی ورزش بھی کریں تاکہ صحت مند اور چاق چوبند رہیں۔ نیز، اپنی ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کریں اور تجویز کردہ ادویہ باقاعدگی سے لیں۔
جو بچّے ماں کے دودھ سے محروم رہیں، وہ بیماریوں اور غذائی قلّت کا جلد شکار ہوتے ہیں، اِس لیے حتی الامکان ڈبّے کے دودھ سے بچنا ضروری ہے۔ ماں کا دودھ اللّٰہ کا انعام اور نوزائیدہ بچّے کے لیے ایک ایسا تحفہ ہے، جس میں ماں، بچّے اور نتیجتاً پوری قوم کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ لہٰذا گھروں اور اداروں میں ایسے انتظامات ہونے چاہئیں کہ مائیں اپنے بچّوں کو سہولت سے دودھ پلا سکیں۔ جب کہ قومی سطح پر ایسے قوانین وضع کرنے ضروری ہیں کہ جہاں بھی خواتین ملازمت کریں، وہاں چھوٹے بچّوں کے لیے ڈے کیئر سینٹرز ہوں اور خواتین کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے بچّوں کو آرام و سکون سے دودھ پلاسکیں۔ کیوں کہ جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر صحت مند بچّے ہی بعدازاں ایک صحت مند قوم کی شکل اختیار کرتے ہیں۔
قراءة أقلHow important is vitamin D for the digestive system?
Vitamin D also maintains the balance of intestinal bacteria.
Vitamin D also maintains the balance of intestinal bacteria.
How important is vitamin D for the digestive system?
Vitamin D plays a vital and multifaceted role in supporting the digestive system—not only aiding nutrient absorption but also promoting gut integrity, immune balance, and microbiome health. 1. Nutrient Absorption & Gut Integrity Calcium absorption: Vitamin D boosts the absorption of calcium (andاقرأ المزيد
Vitamin D plays a vital and multifaceted role in supporting the digestive system—not only aiding nutrient absorption but also promoting gut integrity, immune balance, and microbiome health.
1. Nutrient Absorption & Gut Integrity
2. Modulating Immunity & Inflammation
3. Balancing the Gut Microbiome
4. Additional Clinical Insights
A GI surgeon from Imperial College London recommends vitamin D supplementation (alongside dietary and lifestyle measures) to maintain gut lining integrity and reduce inflammation—potentially lowering colon cancer risk (Business Insider).
Moreover, digestive conditions like celiac disease or IBS can impair vitamin D absorption, underscoring its relevance to gut health both as cause and effect (The Times of India).
Real-World Perspective
A Reddit user shared positive personal experience: after addressing low vitamin D with supplements (and probiotics), their longstanding digestive issues resolved notably within two weeks—reinforcing vitamin D’s impact (Reddit).
Summary Table
Bottom Line
Vitamin D is crucial for digestive health—it supports nutrient absorption, protects and regulates the gut lining and immune function, and fosters a healthy microbiome. Particularly for those with gut-related conditions or limited sun exposure, ensuring adequate vitamin D—via sunlight, diet, or supplementation—can be a key component of digestive wellness. Always consult a healthcare provider for testing and tailored guidance.
Let me know if you’d like tips on dietary sources, optimal levels, or supplementation guidance!
مسالے دار کھانوں کے حیرت انگیز فوائد
یہ کھانے اعتدال سے کھائے جائیں تو نہ صرف یہ کہ نقصان دہ نہیں رہتے بلکہ انسان کو اچھی صحت پانے میں مدد دیتے ہیں
یہ کھانے اعتدال سے کھائے جائیں تو نہ صرف یہ کہ نقصان دہ نہیں رہتے بلکہ انسان کو اچھی صحت پانے میں مدد دیتے ہیں
قراءة أقلمسالے دار کھانوں کے حیرت انگیز فوائد
پاکستان و بھارت کی ایک قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے کروڑوں باشندے مسالے دار کھانے پسند کرتے ہیں۔ گو ماضی میں حکیم انھیں دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتے کہ ان کا کہنا تھا، یہ کھانے انسان کا نظام ہاضمہ تباہ کر دیتے ہیں۔ جدید سائنس نے بھی دریافت کیا ہے کہ اگر مسالے دار غذائیں زیادہ مقدار میں کھائی جائیں تاقرأ المزيد
پاکستان و بھارت کی ایک قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے کروڑوں باشندے مسالے دار کھانے پسند کرتے ہیں۔ گو ماضی میں حکیم انھیں دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتے کہ ان کا کہنا تھا، یہ کھانے انسان کا نظام ہاضمہ تباہ کر دیتے ہیں۔
جدید سائنس نے بھی دریافت کیا ہے کہ اگر مسالے دار غذائیں زیادہ مقدار میں کھائی جائیں تو سینے کی جلن، تیزابیت، اسہال یا پیٹ میں درد کا سبب بن سکتی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں میں جن کے معدے میں حساسیت ہو۔ ان کا زیادہ استعمال مہاسے بڑھا سکتا یا جلد کی جلن کا سبب بن سکتا ہے۔
تاہم جدید تحقیق نے انکشاف کیا ہے،اگر یہ کھانے اعتدال سے کھائے جائیں تو نہ صرف یہ کہ نقصان دہ نہیں رہتے بلکہ انسان کو اچھی صحت پانے میں مدد دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ کے ممتاز ہارورڈ میڈیکل اسکول میں میڈیسن کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرکا کہنا ہے’’جدید تحقیق کا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ مسالے دار کھانے انسان کی بھوک مٹا دیتے ہیں ۔اسے پھر جلد بھوک نہیں لگتی۔ اس اعتبار سے وہ انسانی نظام استحالہ ( میٹابولزم) کو بہترین رکھنے میں مدد دیتے ہیں‘‘۔
متعدد تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے مسالے دار کھانا کھاتے ہیں، ان کی مجموعی صحت بہتر رہتی ہے اور انھیں بیماریاں کم لگتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طبی سائنس دان یہ سمجھنے کے لیے تحقیق و تجربے کر رہے ہیں کہ پاکستان وبھارت میں خاص طور پر مقبول خوراک کس طرح انسانی جسم کی مدد کرتی ہے۔
مثال کے طور پر2020ء میںایک وسیع تحقیقی جائزے سے انکشاف ہوا تھا کہ مرچوں سے بھرپور غذا موٹاپا، دل کی بیماری اور ذیابیطس کا خطرہ کم کردیتی ہے۔ ایک انوکھی بات یہ پتا چلی کہ جو لوگ مسالے دار کھانے اکثر کھاتے ہیں، ان میں مرنے کا امکان ان لوگوں کی نسبت 25 فیصد کم ہو جاتا ہے جو شاذ و نادر ہی اس قسم کے کھانے کھاتے ہیں۔
کیپساسین کی کرامات
یہ تحقیق امریکی درس گاہ، کلیولینڈ کلینک لرنر کالج آف میڈیسن میں ماہر امراض قلب ڈاکٹر بو سو کی زیرنگرانی انجام پائی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ مرچوں کو بہت زیادہ گرم و تیز بنانے والے کیمیکل، کیپساسین(Capsaicin) کی وجہ سے انسانی صحت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ان کا خیال درست ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے، انسان جب مرچیں کھائے تو ان میں موجود کیپساسین ہمارے عصبی خلیوں کے TRPV1 نامی آخذوں یا ریسیپٹرز کو متحرک کر دیتا ہے ۔ یہ ریسیپٹرز پھر غدہ برگردہ( Adrenal Glands) کو متحرک کرتے ہیں جو ایڈرینالائن ہارمون خارج کرتا ہے۔ یہ ہارمون انسانی جسم میں جمی چربی جلاتا اور خون میں شکر کنٹرول کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر انسان سٹریس کا شکار ہے، تو یہ ہارمون اسے نارمل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ TRPV1 ریسیپٹرز انسان کے بدن میں بہت زیادہ فعال مدافعتی خلیوں کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد کرتے ہیں جن کی فعالیت سوزش کو جنم دیتی ہے۔ یہ سوزش ہی انسانی جسم میں امراض قلب اور دیگر دائمی بیماریاں پیدا کرنے میں مددگار بنتی ہے۔
یہی وجہ ہے، کیپساسین والی دوائیں اعصابی درد اور گٹھیا دور کرنے کی خاطر جلد پر لگائی جاتی ہیں کیونکہ یہ مرکب سوزش کم کرتا ہے۔ اور جب ہم کیپساسین مرچوں کی صورت کھاتے ہیں تو وہ جسمانی سوزش گھٹانے میں کام آتا ہے۔ ایک اطالوی تحقیق سے پتا چلا ہے ،جن لوگوں نے کالی مرچ کھائی، انھیں دل کی صحت کے فوائد ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ملے جو میٹھی مرچیں پسند کرتے تھے کہ ان میں کیپساسین بہت کم ہوتا ہے۔
مرچوں کا جزو یہ کیمیکل انسان میں پہنچ کر اس کے نظام استحالہ کو عارضی طور پر تیز کر دیتا ہے۔ اس طرح انسان زیادہ تیزی سے کیلوریز یا حرارے جلاتا ہے۔ یہی عمل اسے وزن کم کرنے میں مدد دیتا اور اسے سمارٹ بنا دیتا ہے۔امریکی ماہر غذائیت کا کہنا ہے کہ وہ وزن کم کرنے کے خواہاں مریضوں کو مسالے دار کھانے کی سفارش کرتی ہیں۔کیپساسین والے کھانا کھانے سے انسان کی برداشت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
سائنسی تحقیق اگرچہ یہ بتاتی ہے کہ مرچ کو تازہ یا کھانے میں پکائے بغیر کھانا صحت کے لیے زیادہ مفید ہے۔ اس طرح مرچوں میں پائے جانے والے انسان دوست اجزاء جیسے کیپساسین، اینٹی آکسیڈنٹس اور وٹامن سی اپنی بیشتر مقدار برقرار رکھتے ہیں۔ اگر مرچوں کو پکایا جائے تو ان کی کچھ مقدار ضائع ہو جاتی ہے۔اسی لیے تحقیق سے معلوم ہوا ہے، جو لوگ باقاعدگی سے تازہ مرچ کھاتے ہیں، ان میں دل کی بیماری، ذیابیطس اور کینسر ہونے کی شرح کم ہوتی ہے۔
جراثیم کے پسندیدہ کھانے
نئی تحقیق سے یہ دلچسپ انکشاف بھی ہوا ہے کہ مسالے دار کھانے انسانی جسم میں رہتے بستے انسان دوست جراثیم کے لیے مفید ہیں ۔یہ جراثیم طبی اصطلاح میں ’’مائکرو بایوم‘‘ (Microbiome) کہلاتے ہیں۔ ان کی بیشتر تعداد ہمارے نظام ہاضمہ میں بستی ہے۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ مسالے دار کھانے مائکرو بایوم کے تنوع میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ بڑا اہم فائدہ مند ہے کیونکہ جراثیم انسانی جسم میں مختلف کام انجام دیتے ہیں، جیسے کھانے کو توڑنا، آنتوں کے استر مضبوط کرنا اور دشمن جراثیم سے لڑنا۔ لہذا ان کا متنوع ہونا انسان کے لیے سودمند ہے۔
دیگر طبی فائدے
٭…مسالے کینسر کے خلیوں سے لڑنے میں مدد کرسکتے ہیں۔تحقیق سے دیکھا گیا ہے، کیپساسین کینسر کے خلیات سست اور تباہ کرنے میں جسم کے مدافعتی نظام کی مدد کرتا ہے۔ یو سی ایل اے کے ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے،کیپساسین چوہوں میں پروسٹیٹ کینسر کے خلیوں کی نشوونما روکتا جبکہ صحت مند خلیوں کو نقصان نہیں پہنچاتا۔
٭… بیکٹیریا کو مارنے میں مدد کرتے ہیں۔ زیرہ اور ہلدی میں طاقتور اینٹی آکسیڈینٹ اور اینٹی مائکروبیل خصوصیات دریافت ہوئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انہیں جسم میں نقصان دہ بیکٹیریا کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
٭…مسالے دار کھانا لمبی عمر کے فوائد رکھتا ہے۔ہارورڈ اور چائنا نیشنل سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے ایک بڑے مطالعے کے مطابق، ہفتے میں چھ یا سات دن مسالے دار کھانا، یہاں تک کہ دن میں صرف ایک بار کھانے سے اموات کی شرح میں 14 فیصد کمی آئی۔
٭…مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ مسالے دار کھانا بُرے کولیسٹرول (LDL) کو کم کرنے اور اچھا کولیسٹرول (HDL) بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔اس طرح انسان میں دل کی بیماری جنم لینے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
قراءة أقلچاکلیٹ میں پایا جانیوالا ایک جز کس بیماری کا علاج کر سکتا ہے؟
چاکلیٹ میں پایا جانیوالا ایک جز اور دیگر ادویات کا نیا مرکب بیماری کی متعدد اقسام کا علاج کر سکتا ہے
چاکلیٹ میں پایا جانیوالا ایک جز اور دیگر ادویات کا نیا مرکب بیماری کی متعدد اقسام کا علاج کر سکتا ہے
قراءة أقلچاکلیٹ میں پایا جانیوالا ایک جز کس بیماری کا علاج کر سکتا ہے؟
ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ چاکلیٹ میں پائے جانے والا ایک جز اور دیگر ادویات کا نیا مرکب برڈ فلو اور سوائن فلو جیسے ذکام کی متعدد اقسام کا علاج کر سکتا ہے۔ جرنل پی این اے ایس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق چاکلیٹ کے جزو تھیوبرومائن اور ارینوسائن (جس کے متعلق کم جانا جاتا ہے) ذکام کے علاج کےاقرأ المزيد
ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ چاکلیٹ میں پائے جانے والا ایک جز اور دیگر ادویات کا نیا مرکب برڈ فلو اور سوائن فلو جیسے ذکام کی متعدد اقسام کا علاج کر سکتا ہے۔
جرنل پی این اے ایس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق چاکلیٹ کے جزو تھیوبرومائن اور ارینوسائن (جس کے متعلق کم جانا جاتا ہے) ذکام کے علاج کے لیے گیم چینجر ثابت ہوسکتے ہیں یہاں تک کہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اینٹی انفلوئنزا دوا اوسلٹامیویر کو بھی پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔
یہ علاج انفلوئنزا وائرس کی ایک اہم کمزوری کو ہدف بنا کر کام کرتی ہے۔ یہ کمزوری دراصل ایک خردبینی چینل ہے جس کو وائرس نقل بنانے اور پھیلاؤ کے لیے استعمال کرتا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق اس راستے کو بند کر کے وائرس کے بقا کی صلاحیت کو کم کیا جا سکتا ہے۔
مطالعے میں محققین کے سامنے آئی کہ سیل کلچر اور جانوروں پر کی جانے والی آزمائش میں اس نئے مرکب نے اوسلٹامیویر کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
قراءة أقلکونسا وٹامن سُپر وٹامن کہلاتا ہے؟
وٹامن ڈی دل، دماغ اور پٹھوں کی صحت میں بھی کردار ادا کرتا ہے
وٹامن ڈی دل، دماغ اور پٹھوں کی صحت میں بھی کردار ادا کرتا ہے
قراءة أقل