"Operation Sadiq Promise 3" (also referred to as "True Promise 3") is the name given by Iran to its most recent large-scale military operation against Israel. This operation, reportedly involving hundreds of drones and missiles, is a direct response to Israeli military actions, particularly those taRead more
“Operation Sadiq Promise 3” (also referred to as “True Promise 3”) is the name given by Iran to its most recent large-scale military operation against Israel. This operation, reportedly involving hundreds of drones and missiles, is a direct response to Israeli military actions, particularly those targeting Iranian nuclear and military facilities, and previously, its consulate in Damascus.
Here’s a breakdown of what the “Sadiq Promise” (or “True Promise”) series of operations signifies:
* “Sadiq Promise” (Vade-ye Sadegh – وعده صادق in Persian): This name, which translates to “True Promise” or “Honest Promise,” implies that Iran views these operations as fulfilling a pledge or commitment to retaliate against Israeli aggression. It signifies a declared strategy of direct military response from Iran.
* The “3” indicates a sequence:
* Operation Sadiq Promise (or True Promise) 1 (April 2024): This was the first direct, large-scale drone and missile attack by Iran against Israel. It was a retaliation for an Israeli airstrike on Iran’s consulate in Damascus, which killed several Iranian military officials.
* Operation Sadiq Promise (or True Promise) 2 (October 2024): This operation involved a missile strike by Iran targeting Israeli military facilities. While it caused minor damage, it demonstrated Iran’s continued capability and willingness to strike directly.
* Operation Sadiq Promise (or True Promise) 3 (June 2025): This is the latest iteration, reported to be a significant escalation involving a large number of drones and missiles, in response to Israel’s “Operation Rising Lion” which targeted Iranian sites.
In essence, “Operation Sadiq Promise 3” means that Iran is executing the third phase of its vowed direct military retaliation against Israel, aiming to demonstrate its resolve and capability to respond to perceived Israeli aggression.
ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع کی جڑیں کافی گہری اور پیچیدہ ہیں۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان براہ راست کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ ابتدائی تعلقات (1947-1979): 1947 میں، ایران ان 13 ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اقوام متحدہ کی تقسیم فلسطین کی قراRead more
ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع کی جڑیں کافی گہری اور پیچیدہ ہیں۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان براہ راست کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔
See lessابتدائی تعلقات (1947-1979):
1947 میں، ایران ان 13 ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اقوام متحدہ کی تقسیم فلسطین کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ تاہم، ترکی کے بعد ایران اسرائیل کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک بنا۔ 1953 میں شاہ محمد رضا پہلوی کی دوبارہ بحالی کے بعد، دونوں ممالک کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی اور ان کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہو گئے۔ یہ تعلقات 1979 کے ایرانی انقلاب تک جاری رہے۔
ایرانی انقلاب اور دشمنی کا آغاز (1979 کے بعد):
1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد، صورتحال مکمل طور پر بدل گئی۔ آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں نئی مذہبی حکومت نے اسرائیل کو “صیہونی حکومت” قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت شروع کر دی اور فلسطینی کاز کی حمایت کی۔ یہیں سے دونوں ممالک کے درمیان براہ راست دشمنی کا آغاز ہوا۔
تنازع کی وجوہات اور اہم موڑ:
* فلسطینی کاز کی حمایت: ایران نے فلسطینی کاز کی بھرپور حمایت کی اور اسرائیل کو خطے میں ایک ناجائز قابض قوت قرار دیا۔
* اسرائیل کا وجودی خطرہ: ایران نے اسرائیل کو ایک وجودی خطرہ سمجھنا شروع کر دیا اور اس کے علاقائی اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات کیے۔
* پراکسی جنگیں: 1980 کی دہائی سے ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست جنگ کے بجائے پراکسی جنگ کا آغاز ہوا، جس میں دونوں ممالک خطے میں مختلف مسلح گروپوں کی حمایت کرتے ہیں۔
* حزب اللہ کا قیام: 1982 میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو ایران کے پاسداران انقلاب نے وہاں کے شیعہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر حزب اللہ کے قیام میں مدد کی۔ حزب اللہ اسرائیل کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئی ہے۔
* دیگر پراکسی گروپس: ایران نے خطے میں دیگر مسلح گروہوں جیسے حماس، اور یمن کے حوثی باغیوں کو بھی مدد فراہم کی، جو اسرائیل کے لیے خطرہ بنے۔
* ایرانی جوہری پروگرام: اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور اسے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہے۔ اسرائیل نے ایران کے جوہری سائنسدانوں پر حملوں اور جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے الزامات کا سامنا کیا ہے۔
* شام میں موجودگی: شام میں جاری خانہ جنگی میں ایران کی حمایت یافتہ فورسز کی موجودگی نے اسرائیل کی تشویش میں اضافہ کیا، جس کے بعد اسرائیل نے شام میں ایرانی اہداف پر متعدد فضائی حملے کیے۔
* حالیہ براہ راست حملے: حالیہ برسوں میں، خاص طور پر اپریل 2024 میں، دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر مبینہ اسرائیلی حملے کے بعد ایران نے اسرائیل پر براہ راست میزائل اور ڈون حملے کیے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔
مختصراً، ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد شروع ہوا، جب ایران نے اسرائیل کو ایک دشمن کے طور پر دیکھنا شروع کیا اور فلسطینی کاز کی حمایت میں اضافہ کیا۔ یہ تنازع پراکسی جنگوں، جوہری پروگرام کے خدشات اور خطے میں اثر و رسوخ کی جنگ کے ذریعے شدت اختیار کر چکا ہے۔